تسنیم جعفری
(قسط نمبر 2)
’’اربے آپ کو تو سمجھانا ہی بے کار ہے! اب یہ دیکھیئے ہماری زمین سے آکسیجن اتنی کم ہوتی جا رہی ہے کہ آئندہ پچاس سال بعد یہ حال ہوگا کہ اگر آپ اپنا چولہا جلانے کے لئے ماچس جلانا چاہیں گی تو وہ جلے گی ہی نہیں کیونکہ ہوا میں آکسیجن ہی نہیں ہوگی جو اس کو جلائے۔ اب بتایئے کیا اب بھی آپ ان ایلین کی ہی حمای کریں گی جو ہماری آکسیجن پر نظر رکھتے ہیں۔؟‘‘ پاپا اخبار سے خبر سناتے ہوئے بولے۔
’’آئے ہائے تو کیا ہوا سے آکسیجن بھی کوئی چرا سکتا ہے؟ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں… یہ تو ہمارے اپنے اعمال ہی خراب ہیں جو ہم قدرتی خزانوں کو گنوا رہے ہیں!‘‘
’’آج نہیں تو کل پتا چل ہی جائے گا کہ ہماری آکسیجن کہاں جاتی ہے…؟‘‘ عمیر بولا
’’لگی شرط…‘‘ پاپا بولے، لیکن ممی کو اب اس موضوع سے بے زاری ہونے لگی تھی، وہ بات بدلتے ہوئے بولیں۔
’’اچھا یہ تو بتایئے کرایہ دار کے لئے جو آپ نے اشتہار دیا تھا اس کا کیا بنا…؟‘‘
’’ہاں وہ… وہ اشتہار پڑھ کر ابھی تک کوئی نہیں آیا۔‘‘
’’کسی فیملی والے کو ہی رکھیئے گا تاکہ میری بھی کمپنی ہو جائے۔‘‘ ممی بولیں
’’جی پاپا! کوئی ایسے کرایہ دار رکھیئے گا جن کے بچے بھی ہوں، میں بھی اکیلا بور ہو جاتا ہوں۔‘‘
’’ارے بھئی آپ دونوں کو اپنی اپنی پڑی ہے… آئے تو سہی کوئی کرایہ دار!‘‘
’’چلو تو پھر دیکھتے ہیں کہ لائٹ کس نے جلائی…!‘‘ پاپا کو بھی تجسس ہوا اور وہ کی ہولڈر سے اوپر والے پورشن کی چابیاں نکال لائے۔
وہ سب سیڑھیاں چڑھ کر جب مین دروازے پر پہنچے تو دیکھا وہاں تالا بھی نہیں لگا ہوا تھا۔
’’ارے تالا کہاں گیا…‘‘ پاپا بوکھلا کر پیچھے ہٹے۔
’’اندر سے باتوں کی آوازیں بھی آ رہی ہیں، حالانکہ نہ کوئی آیا نہ گیا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے پولیس کو نہ بلا لیں…؟‘‘ ممی بھی پریشان ہوگئیں۔
’’نہیں ممی پہلے ہم خود دیکھتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہے، ہو سکتا ہے کہ پچھلے کرایہ دار ہوں، ان کا کوئی سامان رہ گیا ہو، شاید ان کے پاس دوسری چابی بھی ہوگی…!‘‘ عمیر نے آگے بڑھ کر دروازے کے سائیڈ پر لگی بیل بجائی۔
بیل بجانے پر اندر ایک دم خاموشی چھا گئی، تھوڑی دیر بعد کسی کے چل کر دروازے تک آنے آواز آئی، کوئی تھوڑی دیر تک دروازے کے قریب ٹھہرا رہا پھر اچانک دروازہ کھل گیا۔ وہاں ایک بہت لمبے قد کا بوڑھا سا اور غیر مانوس سا مرد غیر مانوس سے حلیہ میں کھڑا تھا، وہ انہیںدیکھ کر حیران ہوا، ادھر عمیر اور اس کے ممی پاپا کے لیے بھی یہ حیران کن بات تھی۔
’’نمستے…!‘‘ ان صاحب نے دروازہ کھولتے ہی کہا۔
’’آ آ آپ کون…؟‘‘ عمیر کے پاپا نے تجسس سے پوچھا،’’اور… اور یہاں ہمارے گھر میں کیا کر رہے ہیں…؟‘‘
’’ارے صاحب آئے تو آپ ہیں ہمارے گھر میں… اور پوچھ ہم سے رہے ہیں…؟ ویسے ہمیں سورج کمار کہتے ہیں۔‘‘ وہ صاحب کمر پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے بولے تو عمیر اور اس کے ممی پاپا تینوں اس غیر متوقع جواب پر بوکھلا گئے۔
’’آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس گھر کا مالک میں ہوں اور یہ میرے ہی گھر کا اوپر والا پورشن ہے جو بہت دنوں سے خالی تھا، میں نے اخبار میں اشتہار دیا ہوا تھا لیکن ابھی تک کوئی نہیں آیا۔‘‘(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کیپشن
محمد ابراہیم بیگ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر، ہمراہ فاطمہ ، افعان سید ،عیسال اور طلحہ۔لاہور
فیضان حق۔ لاہور
ہونہار طالب علم احمد موسیٰ نے تقریری مقابلہ جیت لیا،پرنسپل خالد محمود ملہی سے سرٹیفکیٹ حاصل کررہے ہیں
اریشہ فاطمہ ۔اسلام آباد
زبیر ملک۔اسلام آباد