ملک و قوم کا غم کھائے جا رہا ہے

اندازہ نہیں تھا کہ گزشتہ کالم ’’کھیڈ مک گئی‘‘ کو اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کچھ زیادہ ہی پسند کریگی۔ کچھ کرم فرمائوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ’’کھیڈ مک گئی‘‘ سلسلہ کو اگر مزید جاری رکھ سکوں تو انکے سیاسی سواد اور چسکے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس مرتبہ بھی میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے ان چاہنے والوں کی اس خواہش کا احترام کر سکوں مگر سب سے پہلے انکی خدمت میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا یہ قول پیش کرنا ضروری ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’اپنے لیڈروں اور قومی رہنمائوں کا انتخاب کرنے میں ہمیشہ احتیاط رکھیں کہ ملک کی آدھی جنگ ہمیشہ لیڈروں اور رہنمائوں کے صحیح انتخاب سے جیتی جاتی ہے‘‘۔ 
قائداعظم کا یہ قول گزشتہ ہفتے ہونیوالے عام انتخابات اور انتخابات میں مبینہ طور پر ہونیوالی دھاندلی، غیرشفافیت اورVote Rigging  کے تناظر میں سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔ لیڈر اور اپنے نمائندوں کا انتخاب واقعی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے مگر افسوس! قوم قائد کے اس فرمان پر 76 برس گزرنے کے باوجود حقیقی طور پر عمل پیرا نہیں ہو سکی۔ ’’پتھر پر لکیر‘‘ انتخابات ہوئے۔ عوام نے متعدد رکاوٹوں کے باوجود اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا۔ مختلف مگر مشکل انتخابی نشانات پر مہریں لگائیں‘ بغیر خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا مگر! پھر وہی کچھ ہوا جو ہماری انتخابی تاریخ میں ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلا افسوسناک واقعہ ہے کہ ووٹنگ ٹائم اختتام پذیر ہونے کے باوجود تین روز تک انتخابات کے نتائج منظرعام پر نہ آسکے۔ قوم الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتائج کا 9 فروری کو بھی انتظار کرتی رہی مگر افسوس! الیکشن کمیشن بروقت انتخابات کے نتائج کا فوری اعلان کرنے میں بری طرح ناکام رہا جس سے انتخابی عمل میں دھاندلی اور غیرشفافیت کا تصور مزید اجاگر ہوا۔ انتخابی نتائج کے پہلے روز غیرسرکاری طور پر جو امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو رہے تھے حتمی نتائج آنے پر ایسے بیشتر امیدواروں کو مبینہ طور پر شکست خوردہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ گویا صرف: 
ایک نقطے نے انہیں محرم سے مجرم بنا دیا۔
دنیا بھر میں انتخابی دھاندلی کا جاری جگ ہنسائی کا عمل ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ اگلے روز اس ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کے مصداق راولپنڈی ڈویڑن کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے جواب سابق ہو چکے ہیں‘ راولپنڈی سٹیڈیم میں مبینہ طور پر پاکستان سپر لیگ میچوں کی تفصیلات کے حوالے سے بلائی ایک پریس کانفرنس میں اچانک یہ انکشاف کردیا کہ انتخابات میں واقعی دھاندلی ہوئی ہے اور اس دھاندلی میں مبینہ طور پر وہ بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ راولپنڈی کی 13 نشستوں پر 70، 70 ہزار کی لیڈ سے ہارنے والے امیدواروں کو جعلی مہریں لگا کر جتوایا گیا۔  اس تمام کارروائی کی ذمہ داری لیتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ اس ’’کام‘‘ میں چیف الیکشن کمشنر اور مبینہ طور پر چیف جسٹس بھی شریک ہیں۔ سابق کمشنر کے اس اچانک انکشاف نے دنیا بھر کے سیاسی حلقوں کو ہلا کر ہی نہیں رکھ دیا‘ بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین اور کامن ویلتھ مبصرین پہلے ہی مبینہ انتخابی  دھاندلیوں کا ’’رولا‘‘ ڈال رہے تھے اور اب راولپنڈی ڈویژن کے اس سابق کمشنر کے انکشاف نے بیرون ملک اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کے لیے ایک مرتبہ پھر خفت کا اہتمام کر دیا ہے۔ بحث یہ نہیں کہ سابق کمشنر مسٹر چٹھہ دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں‘ یا وہ سچ کہہ رہے ہیں‘ معاملہ یہ ہے کہ انتخابات کے دوران بطور ریٹرننگ آفیسر اور ڈپی آفیسر فرائض سرانجام دینے والے افسران ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر ہوتے ہیں جو ڈی سی اور پھر ڈی سی اپنی ڈیوٹی کی رپورٹ اپنے باس کمشنر کو پہنچاتا ہے۔ یہ رپورٹ خالصتاً آر او اور ڈی آر او ڈیوٹی سے متعلقہ ہوتی ہے اس لئے دھاندلی کے کسی بھی پہلو کے بارے میں کمشنر باخبر ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صوبائی اور ڈویڑن کا نظام چلانے کیلئے انگریز کا دیا فارمولا ہی یہ ہے کہ پہلے وزیراعلیٰ پھر اسکے ماتحت چیف سیکرٹری۔ اور سی ایس کا تمام ڈویژنل کمشنروں سے رابطہ ہوتا ہے۔ اس لئے ممکنات میں ہے کہ کسی چھوٹے بڑے صاب نے اپنے بڑے صاب تک ’’اندر کی کھیڈ‘‘ بیان کر دی ہو؟
اس سے بڑی قومی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ 76 برس سے جمہوریت کا راگ الاپنے والے ہمارے سیاست دان خود باعمل بن سکے اور نہ ہی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو آزادانہ کام کرنے کے اصول پر قائم رکھ سکے۔ اب یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ قومی خزانے سے 50 ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود انتخابات صاف شفاف نہیں ہو سکے اور غیر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اپنے اس غم کا اظہار اگلے روز جب ملک کے ممتاز عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی صاحب سے کیا تو انہوں نے مسکراہٹ کا اظہار کرتے ہوئے بغیر کسی لگی لپٹی وضاحت کر دی کہ انتخابات کے بعد سیاسی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ جن مقاصد کے تحت انتخابات صاف شفاف ہونے چاہئیں تھے‘ وہ مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ محض حکومتیں قائم کرلینا ملک کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ آئی ایم ایف کی لٹکتی تلوار عالمی بنکوں کے قرضے اور ملک کے غریب عوام کے چولہے جلنے کا مسئلہ اگر 2024ء میں بھی حل نہیں ہوتا تو ایسی ووٹنگ اور ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ؟

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...