انتخابات کا انعقاد اور اساتذہ کی تذلیل 

Feb 22, 2024

عاطف خالد بٹ

عام انتخابات 2024ء کے انعقاد کو دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ان انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے والے اساتذہ آج بھی اس ذلت و رسوائی کی تکلیف محسوس کررہے ہیں جس کا انھیں الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران (آر اوز) کی بد انتظامی کی وجہ سے سامنا کرنا پڑا۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا پر کہیں بھی اس بات کو موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا۔ ملک بھر میں 90 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ کو انتخابات کے انعقاد کے لیے مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں دی گئیں لیکن کسی بھی سطح پر یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ان اساتذہ کو کن مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید اس ملک میں ہر سطح پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اساتذہ دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری یا انسان ہیں، لہٰذا ان کے مسائل اور پریشانیاں اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے بات بھی کی جائے۔
انتخابات کے انعقاد کے لیے قابلِ ذکر تعداد میں ایسے اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں جو عمر کے اس حصے میں تھے یا جسمانی طور پر اس حالت میں تھے کہ انھیں ایسی سخت ذمہ داریاں نہیں دی جانی چاہئیں تھیں۔ حاملہ عورتیں اور دودھ پلانے والی مائیں بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہیں۔ حد یہ ہے کہ ڈیوٹیوں کے لیے ابتدائی طور پر اساتذہ کی جو فہرستیں جاری کی گئیں ان میں معذور اساتذہ کے نام بھی شامل تھے۔ کیا الیکشن کمیشن کو فہرستیں بھیجنے والے دفاتر اور محکمو ں کے افسران اتنی بھی زحمت گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ فہرستیں مرتب کرتے وقت ایسے تمام افراد کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے ان کے نام حذف کردیتے؟ عام طور پر جب کسی شخص کا نام دفتر یا محکمے کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جاتا ہے تو پھر اس شخص کو خود ہی جا کر اپنی معذوری کا باقاعدہ ثبوت دے کر اپنا نام اس فہرست سے کٹوانا ہوتا ہے، اور ظاہر ہے یہ بجائے خود ایک تکلیف دہ کام ہے۔
اس معاملے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ عوام کو یہ لگتا ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسر، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر کے طور پر کام کرنے والے اساتذہ یا دیگر سرکاری ملازمین کو کسی سنجیدہ مسئلے یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی فورم پر کبھی انتخابی عملے کے مسائل زیرِ بحث لائے ہی نہیں گئے۔ سیاستدانوں کو اس بات سے کوئی سروکار اس لیے نہیں کہ ان کی ساری توجہ اسمبلیوں میں نشستوں کے حصول اور ان کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ تک محدود و مرکوز ہوتی ہے۔ بیوروکریسی اس معاملے سے اس لیے لاتعلق ہے کہ اس کو کسی بھی مرحلے پر اس قسم کے کسی ذلت آمیز کام کا حصہ ہی نہیں بننا پڑتا۔ ذرائع ابلاغ اس طرف توجہ اس لیے نہیں دیتے کہ ان کا مسئلہ ریٹنگ ہے جو حقیقی مسائل پر سنجیدہ انداز میں بات کرنے سے نہیں بلکہ غیر یا نیم حقیقی باتوں کو مرچ مسالا لگا کر پیش کرنے سے ملتی ہے۔
ریٹرننگ آفیسر کے دفتر سے ڈیوٹی آرڈر حاصل کرنے سے لے کر اسی دفتر میں انتخابات کے نتائج اور سامان جمع کرانے تک کا سارا عمل اس قدر تکلیف دہ اور توہین آمیز ہے کہ اس پر ہر سطح پر بات ہونی چاہیے اور جلد از جلد ان مسائل کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے جن کا انتخابی عملے کو سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ عام انتخابات بھلے ہی ایک مخصوص مدت کے بعد ہوں لیکن ضمنی اور بلدیاتی انتخابات بھی تو ہوتے ہی ہیں جن کے لیے بہرطور انتخابی عملے کی ضرورت ہوتی ہے، اور انتخابات عام ہوں، ضمنی یا بلدیاتی، انتخابی عملے کے مسائل اور پریشانیاں یکساں رہتی ہیں۔ اس بار عام انتخابات کے موقع پر پریشانی کا ایک سبب موبائل فون سروس کا بند ہونا بھی تھا کیونکہ اس کی وجہ سے نہ تو انتخابی عملہ سامان کی کمی بیشی کے سلسلے میں آر او سے رابطہ کرسکتا تھا اور نہ ہی رات گئے سامان واپس لے جاتے ہوئے عملے کا آپس میں رابطہ ہوسکتا تھا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آر او کے دفتر سے سامان پریذائیڈنگ آفیسرز نے ہی جا کر کیوں وصول کرنا اور پھر واپس جمع کرانا ہوتا ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ سامان گاڑیوں میں رکھ کر پولنگ سٹیشنز پر پہنچا دیا جائے جہاں پریذائیڈنگ آفیسرز موجود ہوں جو اس سامان کو وصول کر کے رسید لکھ دیں، اور پھر انتخابات کے انعقاد کے بعد انھی گاڑیوں کے ذریعے سامان آر او کے دفتر واپس بھیج دیا جائے؟ انتخابی نتائج کی تفصیلات کے حامل فارم 45 اور فارم 46 پریذائیڈنگ آفیسرز خود جا کر آر او کو جمع کرا دیں اور جہاں یہ فارمز جمع ہونے ہوں وہاں لوگوں کے بیٹھنے کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ یہ شرط بھی عجیب ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسرز پولنگ سٹیشنز پر سامان کے ساتھ رات گزاریں لیکن وہاں ان کے رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات سے الیکشن کمیشن اور آر اوز کا کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی طرح پولنگ عملے سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ صبح چھے بجے سے پہلے پولنگ سٹیشن پر پہنچ جائیں تاکہ آٹھ بجے پولنگ کا عمل شروع ہونے سے پہلے تمام انتظامات مکمل کر لیے جائیں۔ ظاہر ہے اس عملے میں اگر نصف نہیں بھی تو بہت بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے جنھیں پولنگ سٹیشن پر پہنچنے کے لیے اپنے والد، بھائی، شوہر یا بیٹے کی خدمات لینا پڑتی ہیں کیونکہ صبح پانچ بجے کے لگ بھگ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ تو دستیاب نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ بہت سی خواتین کی ڈیوٹی ان کے رہائشی علاقوں سے بہت دور لگی ہوتی ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر شام پانچ بجے پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد گنتی، سامان کی پیکنگ اور اس کی واپسی ایسے کام ہیں جن کے لیے کئی گھنٹے چاہیے ہوتے ہیں، یعنی کل ملا کر پولنگ عملہ بیس پچیس گھنٹے مسلسل کام کرتا ہے۔ کیا یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں کہ وہ یہ دیکھے کہ اس دوران پولنگ عملے کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟

مزیدخبریں