جمہوری عمل کا تسلسل سیاستدانوں کی ذمہ داری 

نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے وعدے اور اعلان کے مطابق 8فروری 2024ء کو مجموعی طور پر پرامن اور شفاف انتخابات منعقد کرادیئے ہیں اور اب انتقال اقتدار کے جمہوری طریقہ کار کے مطابق نئی حکومت قائم ہونی ہے۔ پڑوسی ملک چین نے بھی الیکشن کے انعقاد پر پاکستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ جمہوری طریقہ کار کے مطابق نئی آنے والی حکومت چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرے گی اور دونوں ممالک مل کر خطے کے امن‘ ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں گے۔ الیکشن کے نتائج کے مطابق خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو دوتہائی اکثریت سے کامیابی ملی ہے۔ اسی طرح وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کے قیام کے لئے اتحادی جماعتوں سے ملکر حکومتیں قائم ہوسکیں گی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو واضح اکثریت ملی ہے۔ بہرحال وفاق اور صوبوں میں جس جس کی جہاں اکثریت ہے وہاں وہ پارٹی حکومت بنائے گی۔ آنے والی حکومتوں کو چاہئے کہ آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہئے اور کسی بھی طرح کی وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول نہیں ہونا چاہئے۔
الیکشن کے نتائج پر جس کو بھی اعتراض ہے تو سڑکوں کی سیاست کے بجائے قانون کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہئے اور ہائی کورٹ‘ الیکشن کمیشن‘ الیکشن ٹریبونل اور سپریم کورٹ سے رجوع کرکے نتائج پر اعتراضات کا معاملہ حل کرنا چاہئے اور اگر کسی بھی قانونی پلیٹ فارم پر نتائج میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو ہارنے والے کو فراخدلی سے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن‘ الیکشن ٹریبونل اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ بھی الیکشن اعتراضات پر جلد ازجلد فیصلے کرکے پوری طرح انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ سیاسی جماعتوں میں بے چینی پیدا نہ ہو اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ ملک کسی کی بھی سڑکوں کی سیاست کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ پہلے ہی ملک بدترین معاشی حالات‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کا شکار ہے اور ملک کے یہ تمام سنگین مسائل سیاستدانوں نے ہی حل کرنے ہیں اور سیاستدانوں کی اہلیت کا اندازہ بھی اب ہورہا ہے کہ یہ لوگ باہمی اختلافات کو کس طرح سے ملک بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں؟ سیاستدانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر اختلافات کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ملک کو مضبوط جمہوری نظام اور حکومت میسر آسکے۔ موجودہ تمام مسائل کے ذمہ دار بھی سیاستدان ہی ہیں اور ان مسائل سے ملک کو نکالنے کے لئے سیاستدانوں کو پورا موقع میسر ہے۔ ہر ایک کو ضد‘ انا اور ذاتی اقتدار کے لالچ سے باہر آکر ملک کی خاطر کام کرنے کا تہیہ کرنا ہوگا۔
اگر سیاستدانوں نے ماضی کی ہٹ دھرمی اور مخالفت برائے مخالفت کی سیاست جاری رکھی، سیاست میں مزید اخلاقی گراوٹ کا کلچر آیا اور ملک کو سیاستدان مزید بدتر حالات کی جانب لے گئے تو ماضی جیسا ماورائے آئین اقدام ہی ہمارا مقدر بنے گا جس کی تمام تر ذمہ داری خود سیاستدانوں پر ہی عائد ہوگی۔ سب سیاسی جماعتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور ہارس ٹریڈنگ اور دیگر گھناؤنے طرز عمل کے خاتمے پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر الیکشن کے نظام میں خامیاں ہیں تو تمام جماعتیں مل بیٹھ کر قانون سازی کے ذریعے شفاف ترین انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناسکتی ہیں اور جدید ترین سہولتوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ 
ملک کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لئے کئی امور پر متفقہ قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں جس طرح کے آئینی مسائل نظر آئے ہیں ان کے بارے میں بھی جامع متفقہ قانون سازی کی جانی چاہئے۔ سب سے پہلے تو الیکشن کے متناسب نمائندگی کے تحت انعقاد کا اعلان ہونا چاہئے تاکہ سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ ہوسکے اور ہر سیاسی جماعت کو ملک بھر میں اس کی مقبولیت کی شرح سے پارلیمنٹ میں نمائندگی مل سکے اور کوئی بھی ووٹ ضائع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ قرار دیا جانا چاہئے اور انتظامی صوبوں کا نام کسی بھی صورت لسانیت کی بنیاد پر نہ ہو۔ ہر انتظامی صوبے میں سپریم کورٹ کا ڈویژن بنچ بنایا جائے اور تمام عدالتوں میں ججوں کی تعداد میںضرورت مطابق اضافہ کیا جائے۔ ہر انتظامی صوبے میں ہائی کورٹ قائم کی جانی چاہئے تاکہ لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئین میں ترمیم کی جائے کہ تمام عدالتیں دیوانی مقدمات کا فیصلہ ایک سال اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں کرنے کی پابند ہوں اور اسی طرح ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی 6-6ماہ میں اپیلوں پر فیصلے دینے کی پابند ہوں تاکہ لوگوں کو جلد ازجلد انصاف مل سکے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے جس قدر ججوں اور عدالتی عملے کی ضرورت ہو‘ اس کی فوری منظوری دی جائے۔ بدقسمتی سے یہاں تیسری نسل تک انصاف کی منتظر رہتی ہے۔
 وفاق میں صرف 4محکمے خزانہ‘ خارجہ‘ داخلہ اوردفاع ہونا چاہئے اس کے علاوہ تمام امور انتظامی صوبوں کو ملنے چاہئیں اسی طرح صوبے بھی چند ضروری محکمے اپنے پاس رکھ کر باقی اختیارات اور وسائل ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر تفویض کریں۔ ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے فوری طور پر اس قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بلدیاتی نظام کو بااختیار بناکر ملک بھر میں ایک ساتھ اور یکساں نظام کے تحت انتخابات کے انعقاد کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں بلدیاتی نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات و وسائل ملیں۔ 
ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے سیاستدان دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے حقائق پر مبنی سیاست ہونی چاہئے تاکہ ملک میں جمہوری عمل جاری رہے اور گزرتے وقت کے ساتھ جمہوری عمل مستحکم ہو۔ گزشتہ 3حکومتوں سے جمہوری عمل جاری ہے اور سیاستدانوں کو ملک کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا پورا پورا موقع ملا ہے۔ موجودہ حالات میں ادارے مکمل طور پر غیر جانبدار ہیں۔ اب تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایک مضبوط قومی حکومت بناکر معاشی استحکام کے ایجنڈے پر کام کریں۔ اگر سیاستدانوں نے روایتی ہٹ دھرمی جاری رکھ کر ملک کو مزید سیاسی بحران کی جانب دھکیلا تو ملک سنبھالنے کے ذمہ دار ادارے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے پابند ہوں گے اور اس بات کا سب سیاستدانوں کو اچھی طرح علم بھی ہے لیکن پھر تمام تر مسائل کا ملبہ اداروں پر ڈال کر سیاستدان خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن