زکوۃ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکرانہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال و اسباب عطا فرمائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت عقل و دانش بھی ہے۔ عقل سلیم ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا سبب بنتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر انسان کو غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ اپنی عقل و دانش سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے جلووں کا مشاہدہ کرے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل کی زکوۃ کیسے ادا کی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور عقل کی زکوٰۃ بیوقوفوں کی باتوں پر تحمل کا اظہار کرنا ہے۔ یعنی عقل کی زکوٰۃ یہ ہے کہ انسان بیو قوفوں کی باتوں کو برداشت کرے۔ ان کی احمقانہ باتوں کا جواب نہ دے اور تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرے۔ اس کی یہ عجز و انکساری اس کے بڑے پن کی علامت ہو گی۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تیری راہ میں کانٹا رکھے اور تو بھی اس کے جواب میں کانٹا رکھ دے تو ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے۔ عام لوگوں کا دستور یہ ہے کہ وہ نیک کے ساتھ نیک اور بد کے ساتھ بد ہوتے ہیں مگر درویشوں کا یہ دستور نہیں۔ یہاں نیک و بد دونوں کے ساتھ نیک ہونا چاہیے۔ اگر احمق کی بات کا جواب اسی طرح ہی دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکرانہ ادا نہیں ہوتا۔ بڑا پن یہ نہیں کہ احمق کی باتوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا جائے بلکہ بڑا پن یہ ہے کہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اور جاہل ان سے مخاطب ہوں تو کہتے ہیں بس سلام ‘‘۔(سورۃالفرقان )
حضرت نعمان بن مقرن مزنی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریمﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو برا بھلا کہا۔ جسے برا بھلا کہا گیا تھا اس نے کہا اور تم پر سلامتی ہو تو رسول خداﷺ نے فرمایا: کہ تمارے درمیان ایک فرشتہ متعین تھا جو تمہارا دفاع کر رہاتھا۔ جب وہ شخص تمہیں شب و ستم کر رہا تھا تو فرشتہ اسے کہہ رہا تھا کہ ایسا تو ہی ہے اور تو ہی اس کا زیادہ مستحق ہے۔ اور جب تو نے اسے کہا کہ تم پر سلامتی ہو تو فرشتے نے کہا نہیں بلکہ تم پر سلامتی ہو اور تم ہی اس شرف کے زیادہ مستحق ہو۔