بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ جموں کے باعث منگل کے روز مقبوضہ وادی میں کاروبار زندگی معطل رہا اور مودی سرکار کی عائد کردہ پابندیوں کے باعث شہریوں کو سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔ اس موقع پر پورے ضلع جموں کو ڈرونز اور کواڈ کاپٹروں کا نوفلائی زون قرار دے دیا گیا تھا جبکہ شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے اور بڑی شاہراہوں پر لوگوں کی تلاشیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس کے باوجود کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں نے سڑکوں پر آ کر نریندر مودی کا سیاہ جھنڈیوں کے ساتھ استقبال کیا اور ’’گو مودی گو‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔ حریت کانفرنس کی جانب سے مودی کی آمد پر پہلے ہی مقبوضہ وادی میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا جا چکا تھا چنانچہ بھارتی وزیر اعظم کو گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی اپنے دورہ جموں کے موقع پر کشمیریوں کے ہاتھوں سخت خفت اٹھانا پڑی۔ مقبوضہ وادی میں نریندر مودی کے اس نوعیت کے ’’استقبال‘‘ سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز دبانے کے لئے جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے والی بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہو جانا چاہیے کہ جبر کے ذریعے کسی پر اپنی مرضی ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ اگر کشمیری عوام اپنی قیمتی جانیں قربان کر کے گزشتہ 75 برس سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں تو کشمیر کو ہڑپ کرنے والے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو بھی وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقبوضہ وادی میں ’’سب اچھا‘‘ کی اصل حقیقت نہیں چھپا سکتی۔ بھارتی تسلط سے آزادی ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ انہیں اس منزل سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس جدوجہد میں پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے کیونکہ ان کی جدوجہد درحقیقت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی جدوجہد ہے۔
نریندر مودی کے لئے خفت کا موجب ان کا دورہ جموں
Feb 22, 2024