اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ نے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزار بریگیڈیئر (ر) علی خان کو عدم پیشی پر 5لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔آج سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ علی خان کے گھرپولیس بھی گئی اور وزارت دفاع کے ذریعے نوٹس بھی بھیجا، وہ گھر پرنہیں ہیں ،اس لیے نوٹس ان کے گیٹ پرچسپاں کردیا گیا ہے۔چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ سابق بریگیڈیئر ہیں جن کا 2012 میں کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اس وقت جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویزکیانی آرمی چیف تھے۔چیف جسٹس نے بتایاکہ سپریم کورٹ کودرخواست گزار کی ای میل موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا کہ ملک سے باہر ہوں ،ای میل میں بورڈنگ پاس،ٹکٹ اوربحرین جانے کے تمام سفری دستاویزات بھی منسلک کی گئی ہیں۔ درخواستگزار نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس کا کورٹ مارشل ہوا ہو وہ بریگیڈیئر کا رینک استعمال نہ کرے، سب نے مل کر سپریم کورٹ کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ عدالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے، ملک کو دنیا کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بنا دیا گیا، درخواست دائر کرکے پبلسٹی اسٹنٹ کھیلا گیا۔اس دوران عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے پوچھاکہ کیا آپ علی خان کے وکیل ہیں؟ اس پر شوکت بسرا بولے کہ نہیں وکیل نہیں لیکن اس کیس میں پیش ہونا چاہتا ہوں ۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی رہنما کو بیٹھنے کی ہدایت کی تو شوکت بسرا نے کہاکہ میں بھی ہائیکورٹ کا وکیل ہوں ۔اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ ، مبارک ہو آپ ہائیکورٹ کے وکیل ہیں مگرآپ تشریف رکھیں، تاہم شوکت بسرا بضد رہے توچیف جسٹس نے کہاکہ بیٹھ جائیں ورنہ لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیکرتوہین عدالت کا نوٹس بھی کرسکتے ہیں۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے پرانتخابات کالعدم قراردینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزارعلی خان کوپانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔یادرہے کہ درخواست گزارعلی خان 19 فروری کوہونیوالی اس کیس کی پہلی سماعت پر بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ عدم حاضری پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو حکم دیا تھا کہ وہ درخواست گزار کو پکڑ کرعدالت میں پیش کریں۔رجسٹرار آفس سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ درخواست گزار سے رابطہ کرے۔