مظاہر نقوی کیس: استعفے سے کسی جج کے خلاف شروع ہونے والی کارروائی نہیں رکے گی: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی اور کہا ہے کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔ حکومتی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی  کے استفسار پر عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ججزکیخلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کرچکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائیگی؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جج کیخلاف ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہے؟ عدالتی معاون اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہوگئے۔ دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہاکہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفی دے سکتا ہے۔ آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہوگی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہوکر گھر جائے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کاروائی سے روک سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری سوگ شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔ بعدازاں عدالتی معاون خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل میں کہا کہ جج کے دوران سروس کیے گئے مس کنڈکٹ پر کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے ۔  عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے۔آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، جج کے خلاف کارروائی اس کے حاضر سروس ہونے کے دورانیے سے متعلق شکایت پر ہو سکتی ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ مثال موجود ہے کہ ایک جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفیٰ پر ختم کر دی گئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کارروائی دوبارہ کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ کونسل کا ہوگا۔  بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو سنادیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا گیا جس میں عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل مشروط طور پر منظور کرلی، فیصلے میں  جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلاف کیا۔واضح رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف آڈیو لیک اسکینڈل کی سنوائی پر استعفی دے دیا تھا جس پر حکومت نے ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن