پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کے بڑے ممالک میں شریک ہے۔ لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے ملک میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جیسی ہم یہاں دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں، کیا ایسی گورننس کے ساتھ اتنے بڑے ملک کو بہتر چلایا جا سکتا ہے، کیا کروڑوں لوگوں کا بنیادی حق نہیں کہ آزادی کے بعد سات دہائیوں سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی شہریوں کی بڑی تعداد زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ نہ تو سہولیات ہیں نہ ہی سہولیات کی فراہمی کا کوئی فوری منصوبہ یا امکان ہے۔ کیونکہ جس انداز میں ملکی معاملات کو چلایا جا رہا ہے کروڑوں انسانوں کی صحت، مستقبل اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سمیت امن و امان کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان دنوں بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا کہیں بھی ذکر سننے کو نہیں ملتا۔ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات، کھانے پینے کی اشیاء حتی کہ آٹا بھی پہنچ سے دور جا رہا ہے، جان بچانے والی ادویات، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور کم آمدن والے شہریوں کی زندگی تو بہت مشکل ہو چکی ہے، تنخواہ دار طبقہ پس چکا ہے۔ آئینی ترامیم کے نام پر صوبوں کو خودمختاری تو ملی لیکن کیا صوبوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی، کیا صوبوں نے وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا بوجھ خود اٹھانے اور وفاق کا ساتھ دینے کی حکمت عملی اختیار کی۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا، صوبوں میں حالات بگڑ رہے ہیں اور حکمران طبقہ آج بھی بیان بازی میں مصروف ہے۔ اشیاء خوردونوش مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور اب وفاقی حکومت نے جان بچانے والی ایک سو چھیالیس ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جس کے مطابق کینسر، ویکسین اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے حکومت کو دو سو باسٹھ ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی سمری بھیجی تھی تاہم حکومت نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فہرست میں شامل جان بچانے والی ایک سو چھیالیس ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ فہرست میں شامل ایک سو سولہ ادویات کی قیمتیں فارماسیوٹیکل کمپنیاں خود بڑھائیں گی۔حکومت نے ادویات کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کر کے فارماسوٹیکل کمپنیوں کو قیمتیں از خود بڑھانے کی اجازت دی تھی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو اس سے زندگی گزارنے کی بنیادی اشیاء مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر ہر دوسری چیز پر پڑے گا، گیس مہنگی ہو گی تو کھانا بھی مہنگا ہو گا لیکن یہاں تو نمایاں اور واضح نظر آنے والی چیزوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا اس حساب سے کون سوچے اور کون اس کا توڑ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرے۔ اس موسم سرما میں جس حساب سے لوگوں نے گیس کے بل ادا کیے ہیں سب کو لگ پتہ گیا ہے کہ سستی گیس کتنی بڑی نعمت تھی، استعمال تو وہی تھا لیکن سینکڑوں میں آنے والا اب ہزاروں میں آ رہا ہے۔ ایک طرف سردیاں ختم ہو رہی ہیں اور ہم موسم گرما کی طرف بڑھیں گے تو بجلی کے بل خون جلانے آئیں گے۔ نئی حکومت کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہو گا کہ پانی، گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آمدن کے حساب سے کیسے توازن لایا جائے۔ کیونکہ آمدن میں اضافہ تو نہیں ہو رہا لیکن اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان حالات میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی مہنگی کرنے کی درخواست بھی جمع کرا دی ہے۔سی پی پی اے کی جانب سے جنوری کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت بجلی ایک ماہ کیلئے مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرائی گئی ہے۔ درخواست میں بجلی کی قیمت میں سات روپے تیرہ پیسے اضافہ مانگا گیا ہے۔ اگر یہ درخواست منظور ہوتی ہے تو صارفین پر چھیاسٹھ ارب ستتر کروڑ روپے تک کا اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے۔ موسم گرما شروع ہونے کے بعد بہت بڑا مسئلہ مہنگی بجلی اور اس سے بھی بڑا مسئلہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی ہے۔ گزرے موسم گرما میں لوگ بجلی کے بل ہاتھ میں اٹھائے پھرتے تھے کہ بجلی آتی نہیں اور اتنا بل بھیج دیا جاتا ہے کہ جمع کروانے کی سکت نہیں ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، ملک میں کروڑوں کم آمدن والے افراد کی حالت پر رحم کریں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کریں یہ جو جمہوریت ملی ہوئی سے اس سے صرف خود فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ جن کے ووٹوں کا نام لے کے پارلیمانی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ سمجھے جانے والوں کے لیے پانی کے چشموں کا ہی بندوبست کر دیں۔ تماشا بہت ہو چکا ہے۔ مزید سیاسی تماشا نہ تو عوام میں برداشت کرنے کی سکت باقی ہے نہ ہی اس کی مزید اجازت دی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی آزادی بہت سی ذمہ داریاں بھی لے کر آتی ہے، یہ جو ذاتی مفادات کی خاطر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا سلسلہ ہے اس کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے، یہ جو ٹویٹ ری ٹویٹ کا چکر ہے بندوبست اس کا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی چیز ملک سے بڑھ کر نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاست دان حالات کو سمجھیں جسے جہاں مینڈیٹ ملا ہے حکومت بنائے اور ملک و قوم کی خدمت کرے، تیری سیٹیں میری سیٹیں ان چکروں سے نکل کر آگے بڑھیں اور جنہیں حکومت بنانے کے لیے طاقت کا سرچشمہ کہتے ہیں ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔
آخر میں بشیر بدر کا کلام
آنکھوں میں رہا، دِل میں اْتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مْسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا ،سب چونک پڑیں گے
اِک عْمر ہْوئی دِن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
یاروں کی مْحبت کا یقیں کر لِیا میں نے
پْھولوں میں چْھپایا ہْوا خنجر نہیں دیکھا
محبْوب کا گھر ہو کہ، بزرگوں کی زمینیں !
جو چھوڑ دِیا، پھر اْسے مڑ کر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہْوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتّھر نہیں دیکھا
یہ پْھول مجھے کوئی وِراثت میں مِلے ہیں
تم نے مِرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھّا ہے، کہ نگینے سے جْڑے ہیں
وہ ہاتھ، کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہْوں، اْس نے مجھے چْھوکر نہیں دیکھا
سیاست سے نکلیں، مسائل کا حل سوچیں!!!!!
Feb 22, 2024