مقتدر پاکستانی کالم نگار اور بانیانِ پاکستان …(۱)

بانیانِ پاکستان کے حوالے سے ایک پاکستانی قومی اخبار (نوائے وقت نہیں ) کے ادارتی کالموں میں کچھ دنوں سے تحریک پاکستان کے حوالے سے جاری علمی بحث کے دوران تاریخ اور تحقیق کے حوالے سے کچھ اِیسے معاملات پر بھی گفتگو کی گئی ہے جو نظریہء پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر موجودہ نوجوان نسلوں کی ذہنی تربیت کیلئے سمّ قاتل کی حیثیت کی رکھتے ہے۔ اہم سوال یہی ہے کہ کیا چند مقتدر سینئر دانشوروں کی جانب سے شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کو اپنا لیڈر قرار دینے کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر بانیانِ پاکستان کی خدمات اور نظریات پر تازیانے برسانے کی جسارت کو کسی طرح بھی احسن اقدام قرار دیا جا سکتا ہے؟ اِسی طرح کیا تحریکِ پاکستان کے ٹھوس اور مضبوط حقائق کو محض بیرونی اداروں کی جانب سے سیاق و سباق سے ہٹ کر فراہم کردہ اطلاعات جن میں بانیانِ پاکستان کی جانب سے منزل تک پہنچنے کیلئے طاقتور سیاسی گروپوں کی موشگافیوں اور manipulations کا موثر جواب دینے کے حوالے سے اختیار کی جانیوالی حکیمانہ اسٹریٹجی بھی شامل ہے ، کو مخصوص مفادات کے پیروکاروں کی جانب سے بنیاد بنا کر تاریخ کے established facts کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ میرا جواب یہی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔
تاریخ کے اساتذہ کرام اور ممتاز سیاسی پنڈت بھی یہی کہتے ہیں کہ ٹھوس معروضی حقائق جو متعلقہ زمانے کی جدوجہد اور تحریکوں سے حاصل شدہ نتائج کی بنیاد پر قائم ہوئے ہوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر معدودے چند عارضی نوعیت کے وقتی سیاسی بیانات کی روشنی میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کابینہ مشن پلان کے پس منظر میں کچھ پاکستانی اور بھارتی دانشوروں کی جدید تحقیق کو ایک رائے تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن تحریکِ پاکستان کے ٹھوس حقائق اور نتائج سے مطابقت نہ رکھنے والی عارضی گذارشات اور حصولِ پاکستان کی منزل پر پہنچنے کیلئے اسٹریٹیجی کے طور پر اپنائی جانے والی کسی بھی حکمت عملی کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نئے نتائج اخذ کرنے کا ماخذ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
گو کہ مندرجہ بالا علمی بحث کے تناظر میں ممتاز مصنف ، محقق ا ور کالم نگار محترم ڈاکٹر صفدر محمود اور معروف کالم حرف تمنا کے خالق محترم ارشاد احمد حقانی ہی پیش پیش رہے ہیں لیکن مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر نے اِس بحث کو اپنی اپنی مخصوص فکر و نظر کے حوالے سے نصف سچ کی ترویج کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے بارے میں نہ صرف غلط سوالات قائم کئے ہیں بلکہ اِس علمی بحث کے پیرا میٹرز سے باہر ہوجانے کے باعث نوجوان نسل کیلئے بھی انتہا پسند ہندوئوں کی اکھنڈ بھارت اور وحدت ہند کی تحریک کے حوالے سے کنفیوژن میں قدرے اضافہ ہوا ہے؟ جہاں تک قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کا تعلق ہے ، چاہے وہ شروع میں کانگریس میں رہے یا پھر تحریکِ پاکستان کی آن ، شان اور جان رہے ، تو اُنہوں نے ہر فورم پر ہمیشہ ہی برّصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے قومی سیاسی حقوق کے تحفظات کے حوالے سے ہی اپنی جدوجہد کو جاری رکھا جو بتدریج وسیع تر سیاسی تجربات کی روشنی میں حصولِ پاکستان کی ناقابل شکست تحریک کی شکل میںظاہر ہوئی ۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں موجود زبردست ہندو اکثریت اور انگریز حکمران جو وحدت ہندوستان کے حامی تھے اور قائداعظم کو اپنے راستے کی اہم رکاوٹ گردانتے تھے لیکن قائداعظم نے ہمیشہ ہی ہندوستان میں مسلمانوں سے مساویانہ سلوک اور اُنکے سیاسی حقوق کے تحفظ کی بات کی اور انگریز ہندو اتحاد کے وحدت ہند کے فلسفے کیخلاف تاریخ کے ہر فیصلہ کن موڑ پر نہ صرف حکمت اور جرات کیساتھ ہر محاذ پر اُنکا مقابلہ کیا بلکہ بّرصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخص کو ایک علیحدہ قوم کی حیثیت سے منوایا اور پاکستان حاصل کیا ۔ گو کہ محترم ارشاد حقانی اور ڈاکٹر صفدر محمود کا مکالمہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری ، برطانوی کابینہ مشن پلان، جنرل گریسی کے کردار اور بنگالی زبان کے مرکزی زبان کے طور پر اپنانے کے بجائے اُردو زبان کو مرکزکی زبان بنانے سے ہے لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر میں فی الوقت کابینہ مشن پلان میں قائداعظم کے کردار اور مطالبہ پاکستان سے علامہ اقبال اور قائداعظم کی دستبرداری کے حوالے سے قومی پریس میں کی جانیوالی ہرزہ سرائی تک ہی اپنی گفتگو کو محدود کرنا چاہوں گا اور دیگر موضوعات پر آئندہ کسی مضمون میں گفتگو کی جائیگی ۔
میرے لئے یہ قطعی حیران کن اَمر تھا جب میں نے ’’میرا لیڈر میرا وطن‘‘ کے عنوان سے 14 جنوری 2009 کا ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون پڑھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال خوبی سے اِس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو اُن کے اور محترم ارشاد احمد حقانی کے درمیان کچھ عرصہ سے جاری تھی اور مضمون کے آخر میں یہ لکھ کر کہ ’’ اگر چہ میں نے اپنی طرف سے بحث سمیٹ دی لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں قائداعظم کی کردار کشی کرنے والوں اور قیام پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کا جواب نہیں دونگا ۔ اگر یہ جرم ہے تو میں اِس جرم کی سزا بھگتنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوں کیونکہ قائداعظم میرا لیڈر ہے اور پاکستان میرا وطن ہے ‘‘۔
میں ڈاکٹر صفدر محمود کے اِن جاں سے عزیز کلمات اور پیراں سالی کے باوجود عزمِ جواں پیش کرنے پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ قائداعظم ہی ہمارے لیڈر ہیں اور وطن عزیز پاکستان کو عظمت کی بلندیوں پر لے جانے کیلئے ایسے ہی عزم مصمّم کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک محترم ارشاد احمد حقانی کی علمی صلاحیت کا تعلق ہے وہ پاکستان کے صف اوّل کے لکھاریوں میں شامل رہے ہیں لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے علامہ اقبال اور قائداعظم کے حوالے سے جو تبدیلی اُن کی فکر و نظر میںمحسوس کی جا رہی ہے اُسے حیران کن ہی کہا جائیگا ۔ علمی بحث و مباحثے کے حوالے سے حقانی صاحب کا نام اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی مستند ہی سمجھا جاتا ہے لیکن جو کچھ اُنہوں نے اپنے مضمون ’’ڈاکٹر صفدر محمود کے جواب میں ‘‘ 15 جنوری 2009 میں لکھا ہے ، اُس سے یقیناً اختلاف ہی کیا جائے گا ۔ اُن کا ڈاکٹر صفدر محمود کی مستند تحقیق کے جواب میں یہ کہنا کہ’’ اِن دنوں ہمارے درمیان ایک علمی بحث چل رہی ہے ۔ اُن کے بقول میں کہتا ہوں کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے تھے ۔ میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بھی بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے‘‘ ۔
محترم ارشاد حقانی صاحب کا یہ موقف تاریخی حقائق کے منافی ہے لہذا اگر وہ ضروری سمجھیں تو اُنہیں اپنی رائے کوتاریخی حقائق کی روشنی میں ضرور ریویو کرنا چاہئیے ۔ محترم حقانی صاحب کو اپنی رائے کی حمایت میں مستند محققین اور سکالرز کی کتابوں اور مقالوں کے ریفرنس تو ضرور پیش کرنے چاہئیں لیکن قارئین کی خام تحقیق کو اپنے کالم میں بحث برائے بحث کے حوالے سے جگہ دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ سول سوسائٹی ایک مستند کالم کے ذریعے پیش کی جانے والی ایسی رائے کو بھی مستند ہی سمجھنے لگتی ہے جبکہ ایسی آراء کیلئے ہر قومی اخبار قارئین کی رائے کیلئے ایک علیحدہ صفحہ مہیا کرتا ہے اور کسی مستند کالم کے ذریعے ایسی متنازعہ رائے پر آنیوالے ہر جواب کو اپنے کالم میں جگہ دینا کسی بھی کالم نگار کیلئے مناسب نہیں ہے۔
محترم ارشاد احمد حقانی کا یہ کہنا کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کابینہ مشن پلان قبول کرنے سے بہت پہلے ہی مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے ، محض ایک مفروضہ اور بانیانِ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی منظم مہم کا حصہ ہی ہے ۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن