یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنی اور اپنی نسل کی بقا کیلئے اپنے اردگرد کے ماحول میں مثبت تبدیلی کا آرزو مند ہوتا ہے‘ وہ امن کے قوانین کے تابع زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری یہ نعرہ لگاتا ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچا¶ تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام کی اجتماعی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئے جس کی وجہ سے وہ باعزت طورپر ایک بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوں مگر ہمارے لیڈران کے خیال میں ریاست سے مراد ریاستی حکمران ہیں اور سیٹس کو کے علمبردار ریاستی اقتدار پر سیاست کے ذریعے قابض ہو کر اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے تحفظ کو ہی تبدیلی کی علامت گردانتے ہیں حالانکہ کسی بھی ریاست میں سماجی تبدیلی کا عمل ایک ارتعائی عمل کا شاخسانہ ہوتا ہے اور ریاستی اداروں کے منصفانہ کردار کی وجہ سے ہر شخص چاہے وہ امیر ہو یا غریب‘ طاقتور ہو یا کمزور قانون‘ آئین اور ملکی ضابطوں کی پابندی اور احتساب کے ذریعے بتدریج ایک بہتر سے بہتر خوشحال اور پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے اگر تبدیلی کا فطری ارتقائی عمل منصفانہ نہ ہو۔ طاقتور حکمران گروہ کمزوروں کا استحصال کرنا شروع کر دیں۔ ریاست طاقتور افراد کے سامنے جھک جائے اور کمزوروں کو سزا دینا شروع کر دے تو پھر ایسے میں محروم اور مظلوم طبقات متحد ہو جاتے ہیں اور قدرت انکی مظلومیت سے متاثر ہو کر کسی ایسے لیڈر کو اس قوم پر اتار دیتی ہے جو سچا انقلابی ہوتا ہے وہ عام لوگوں سے زیادہ غریب ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیڈران کی طرح نہیں ہوتا ہے کہ خود بڑے محلات میں رہتا ہو اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہو۔ علاج معالجے کیلئے بیرون ممالک چلا جاتا ہو۔ اربوں‘ کھربوں ڈالرز کے اثاثوں کا مالک ہو بلکہ سچا انقلابی لیڈر ما¶زے تنگ ہوتا ہے جس نے ساری زندگی بیرون ملک کبھی کوئی دورہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا وہ فیڈرل کاسترو لینن‘ ہیوگوشاویز‘ پی کو ان‘ نیلسن منڈیلا کی طرح کا ہوتا ہے نہ کہ معاف فرمائیں طاہر القادری‘ نواز شریف‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کی طرح شاہانہ معیار زندگی کا حامل ہوتا ہے۔
قارئین تبدیلی کا عمل دو طرح سے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے ایک تو وہ تبدیلی جو معاشرے میں جدت و اختراع‘ تعلیم و تربیت ٹیکنالوجی کے اثرات کے تابع جامہ روایات‘ کلچر‘ تہذیب و تمدن میں کسی قانون‘ ضابطے اور اخلاقی قدروں کے ذریعے ثقافتی اور ادارتی قدروں میں آہستہ آہستہ تبدیلی سے آتی ہے اور معاشرے کا وسیع طبقہ ان تبدیلیوں کو نسل در نسل بتدریج اپنے اندر جذب کرتا چلاتا ہے۔ ایسی تبدیلی کو فنکشل تبدیلی کہتے ہیں۔ یہی تبدیلی بالآخر سچی اور ارفع جمہوری تقاضوں کے تحت معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تاہم اگر کسی بھی ریاست میں اگر انسانوں کا ایک طبقہ‘ گروہ یا ادارہ اپنی ریاستی طاقت‘ دولت اور سرمائے کی مدد سے دوسرے کمزوروں طبقوں کا استحصال کرنا شروع کر دے اور ایک ریاست میں موجود مختلف گروہوں اور قوموں کے وسائل‘ اختیارات اور اقتدار کی منصفانہ تقسیم نہ ہو۔ کسی بھی مخصوص طبقے کی نسلی امتیاز یا مذہبی عصبیت کی بنیاد قتل و غارت شروع کر دی جائے اور ریاست اپنی کرپشن یا کمزور انتظامی گرفت کی وجہ سے طاقتور شخص کے سامنے بے بس ہو جائے اور کمزور پر چڑھ دوڑے تو پھر ایسے میں مظلوم طبقات ریاست کی ہر شے کو تہس نہس کرکے ساختی تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند کر دیتے ہیں تو پھر ایسے میں اس گروہ کو اگر ان جیسا‘ انہی کی طرح رہن سہن رکھنے والا‘ انہی کی طرح سوچنے والا ہمدرد رہنما مل جائے تو پھر وہ سیٹس کو کے علمبردار حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اینٹ سے اینٹ بچا دیتے ہیں اور اپنا حق طاقتوروں کو ہلاک کرکے چھین لیتے ہیں پھر یہ سر پھرے انقلابی کسی ضابطے‘ قانون‘ آئین اور دستور کے پابند نہیں رہتے ہیں۔ بڑے بڑے ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔
لاکھ انسان جنگوں اور لڑائیوں میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کبھی چنگیز خان تو کبھی ہٹلر کبھی امیر تیمور دنیا کے امن و سکون کو تاراج کر دیتے ہیں۔ تو کبھی جنگ عظیم اول اور دوم میں کروڑوں افراد تباہی اور بربادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہی جاپان جس کو امریکہ ایٹم بم کے ذریعے تباہ و برباد کر دیتا ہے اور کروڑوں افراد کو بے گناہ ہلاک کر دیتا ہے تو جنرل میکارتھر اسی جاپانی قوم کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قابل بنا دیتا ہے کہ جاپانی قوم دنیا میں معاشی طور پر آبرومندانہ حیثیت حاصل کر لیتی ہے اگر ماوزے تنگ کے انقلاب کی وجہ سے چین میں لاکھوں افراد نے قربانیاں دیں تو آج وہی چین اقوام عالم کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم بن چکی ہے مگر ہمارے قائداعظم نے پاکستان بنایا لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود ہماری قوم میں نہ تو ارتقائی عمل کے ذریعے ایسی تبدیلی نظر آئی جو انکے بچوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ کرے اور نہ ہی کسی مارشل لاءیا چھوٹی موٹی ساختی تبدیلی کے عمل کے نتیجے میں اسکی تعمیر نو کا جذبہ اسکے حکمرانوں کے دلوں میں بلند ہوا۔ ایسا انقلاب جو ساختی تبدیلی لاتا ہے وہ ترکی کی بلقائسزیشن کرکے اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔
پاکستان کے ایک حصے کو بنگلہ دیش بنا دیتا۔ سویت یونین بہت سارے ٹکروں میں بٹ جاتا ہے۔ مصر‘ لیبیا‘ تیونس میں آمریت کے شکنجے میں جکڑے عوام تبدیلی کے عمل سے گزر جاتے ہیں مگر یہ ایک جزوی صداقت ہے کہ دنیا میں اکثر انقلاب بھوک کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں چاہے یہ روس میں راز روس کا تختہ الٹانے سے آئے چاہے چین میں بادشاہ کائی شنگ کو ریڈ آرمی شکست دے‘ انقلاب فرانس ہو یا ہٹلر کا یہودیوں کو ہلاک کرنا اور امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا جرمن‘ جاپان‘ آسٹریا اور پولینڈ کو تباہ و برباد کرنا ہو ان سب کے پیچھے معاشی مفادات کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ وہ معاشی مفادات جو کسی ایک چھوٹے گروہ یا طبقے کے ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ انقلابی لیڈروں کے عزم و ہمت کی بنیاد پر کروڑوں عوام کے دلوں کی آواز بن جاتے ہیں۔ پھر امام خمینی شہنشاہ ایران کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور حسنی مبارک اور قذافی المناک انجام کا شکار ہو جاتے ہیں۔
قارئین پاکستان کے طبقہ اشرافیہ کے لیڈران جب اقتدار اور طاقت کے کھیل میں آپس میں بندر بانٹ کرنے پر الجھ جاتے ہیں تو پھر انقلاب انقلاب کے نعرے لگا کر اپنے مذہبی عقیدت مندوں‘ اپنے چاہنے والوں کے جذبات کو ایکسپلائٹ کرتے ہیں اور محض تبدیلی کے نعرے بلند کروا کر عام لوگوں کے دلوں میں محرومیوں کی وجہ سے جو غم و غصہ ہوتا ہے اس کا کتھارسس کروا دیتے ہیں ایسے ہی جسے سلطان راہی مرحوم سینما سکرین پر غریبوں کا مسیحا بن کر طاقتور جاگیردار اور قانون کے رکھوالوں کو تہس نہس کر دیتا تھا اور سینما ہال میں تماش بین اس کو مسیحا سمجھ کر اسکے گنڈاسے کے ہر وار کے ساتھ تالیاں بچاتے تھے۔ وہ بیچارہ اسی المیے کی وجہ سے جان سے گیا۔ جب گوجرانوالہ کے قریب ڈاکو¶ں نے اسکی گاڑی کو روکا تو اس نے بتایا کہ میں سلطان راہی ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ وہ مجھے اتنا بڑا فنکار سمجھتے ہوئے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے مگر ڈاکو¶ں نے یہ کہہ کر اسے گولی ماردی ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ گولی تم پر اثر نہیں کرتی ہے۔ آج اگر طاہر القادری‘ شہباز شریف‘ عمران خان تبدیلی کے لئے حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے انقلابی اشعار پڑھ کر لوگوں کو اپنی ڈگڈگی پر نچاتے جائیں گے تو کب تک وہ ایسا کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن ڈاکٹر طاہر القادری کو مسلمانوں کو جے سالک کہتے ہیں تو یاد رکھیں جے سالک تو دونوں ہستیوں سے زیادہ قابل احترام ہے وہ اپنی قوم کے ساتھ انہی کی طرح عام سی زندگی بسر کرتا ہے کیا فضل الرحمن اور طاہر القادری‘ شہباز شریف یا عمران خاں ساختی انقلاب کے نقیب ہو سکے ہیں کبھی نہیں کیونکہ انکا رہن سہن سوچ و فکر‘ ماوزے تنگ‘ ہیوگوشاویز حتیٰ کہ انا ہزارے کی طرح بھی نہیں ہے۔ لہٰذا آج سیٹس کو کو بچانے کیلئے کوئی بھی سیاسی گروہ ریاستی اقتدار کے لئے جنگ ایک حد سے نہیں بڑھانا چاہتا ہے۔ کیونکہ ....
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
چلیں‘ انقلاب اور تبدیلی کی بات چھوڑیں ہمارے سیاستدان صرف یہ بتا دیں کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے پاکستان کی معیشت جو ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی آمدنی اور اخراجات میں فرق 1624 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور اس سلسلے آئی ایم ایف پاکستان کے ذمے قرضے کو ری شیڈول نہیں کرے گا تو کیا یہ بجٹ کا خسارہ نئی حکومت عوام پر مزید ٹیکسوں کے بوجھ لاد کر پورا کریگی۔ یا کرنسی نوٹ چھاپ کر مہنگائی بڑھاتی جائیگی۔ یا بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کیلئے کرپشن کے لوٹ مار کے 100 ارب ڈالرز پاکستان لائے گی؟