بھارتی ذہنیت کا تسلسل

Jan 22, 2013

شریف فاروق

11جنوری 2013ءکو بھارتی کانگریس اور بھارت کے معروف سماجی کارکن انا ہزارے کا بیان ہمارے سامنے ہے جسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انا ہزارے نے بھارتی حکومت کو برملا مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت جنگ کا اعلان ہی نہ کرے بلکہ اسکے خلاف جنگ کا آغاز کر دے۔ اسکی وجہ انا ہزارے نے یہ بتائی ہے کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر دو بھارتی فوجیوں کو بیدردی سے ہلاک کر دیا، انا ہزارے کا یہ بیان کوئی غیرمتوقع نہیں بلکہ ہر بھارتی کے دل کی آواز ہے۔ بھارت کے انتہا پسند لیڈر اور سیاسی جماعتیں بلا استثنیٰ زہر انگیز فکر کو فروغ دیتی رہتی ہیں اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں جب وہ پاکستان کو اس کی آزادی سے محروم کرنے کا نعرہ نہ لگاتی ہوں۔ ہم پاکستانی ایسے انتہا پسندانہ بیانات، تقریروں اور ان سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی افواہوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ بھارت یہ باتیں محض اپنے عوام کی تفنن طبع کے لئے کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ بھارتی سیاسی جماعتیں ہوں یا کوئی بھی خود پاکستان کو ایک لمحہ کے لئے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب مشرقی اور مغربی پاکستان یکجان تھے تو بھارتی سیاستدان ہی نہیں بھارت کا چھوٹا سیاسی یا غیرسیاسی کارکن بین الاقوامی اجتماعات میں مشرقی و مغربی پاکستان کے جغرافیائی فاصلے کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک ملک کے دو حصے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح انسانی وجود مختلف اعضا سے عبارت ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ انسان کے دو ہاتھ دو ٹانگیں، دو آنکھیں وغیرہ کیوں ہیں۔ مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ باہمی عالمی مواصلات کا یکجا ہونا جغرافیائی فاصلوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا لیکن کچھ تو اس دور کی پاکستانی قیادت کی حماقتوں اور سب سے بڑھ کر بھارت کی یہ پالیسی کہ پاکستان کا وجود برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے، آڑے آئی اور مشرقی اور مغربی پاکستان کو بھارتی جارحیت کی ناقابل قبول پالیسی نے ہمارے ملک کو دولخت کر دیا۔
انا ہزارے کا بیان بھارت کی اسی زہر آلو دفکر (Thinking)کا تسلسل ہے۔ جہاں تک ان کی باتوں کا تعلق ہے اس پر ہمیں کوئی تشویش نہیں کیونکہ انا ہزارے جیسے بدباطن روز اول سے ہی اس فکر کو عام کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف مسائل اور پروپیگنڈے کو ہوا دیتے رہتے ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو الگ کر دیا گیا لیکن دونوں ملکوں کے عوام کے دل اب بھی ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
 خیر آمدم برسرمطلب کنٹرول لائن پر حالیہ جھڑپوں کے بعد پاک بھارت کشیدگی سے دونوں ممالک کی امن دوست قوتوں کے علاوہ عالمی برادری میں بھی خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے دونوں ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ باہمی مذاکرات کے ذریعے نئی پیدا شدہ کشیدگی کو کم کیا جائے۔ امریکہ اور چین کا مشورہ بھی یہی ہے کہ کنٹرول لائن پر دو طرفہ خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری ختم کیا جانا چاہئے۔ دونوں طرف کی قیادتوں کو یہ حقیقت ہر گز نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر کا مسئلہ حل طلب رہ جانے کے باعث اور پاکستان اور بھارت مسلسل حالت جنگ میں رہے ہیں۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں کھینچی گئی لکیر جسے لائن آف کنٹرول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ وہ آزادی کے وقت سے ہی شعلے اگلتی رہی ہے جن کے باعث دونوں فریقوں یا روائتی حریفوں کی طرف سے جانوں کا اتلاف ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ لائن آف کنٹرول کو پرسکون رکھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ یہ صرف پاکستان کی ضرورت نہیں۔ بھارت کو بھی ترقی کی شاہراہ پر تیز سفر کرنے کے لئے امن و سکون کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت حال میں انا ہزارے اور ان جیسے دیگر بھارتی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات سے خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے جاری کوششوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ یہ جلتی پہ تیل جیسے بیانات سے آگ بھجنے کی بجائے مزید بھڑکتی ہے۔ آگ جلتے وقت اپنے پرائے کی پہچان نہیں رکھتی لیکن ناپائیدار امن سے یہ مراد بھی نہیں کہ کشمیر کا سفر اسی طرح لٹکا رہے۔ اور یو این کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی تیسری نسل بھی فیصلہ نہ کر سکے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے جس کی وہ شہ رگ ہے۔ بقول قائداعظم یا بھارت کی متنازعہ مقبوضہ حیثیت کو ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنا ہے۔

مزیدخبریں