جنگ یا امن مذاکرات… ایک جائزہ

جنگ یا امن مذاکرات… ایک جائزہ

جنگ اور امن مذاکرات بیک وقت ناممکن ہیں اگر یہ دونوں معاملات بیک وقت چل رہے ہیں تو یہ دونوں حریف وقت اور دائو کی تلاش میں ہیں۔ اس وقت طالبان اور پاکستان امن مذاکرات کے درمیان معلق ہیں جبکہ خطے کی تیسری بڑی طاقت امریکہ اور اتحادی ممالک ہیں جو امن مذاکرات اور جنگ کے بیک وقت حامی ہیں کیونکہ دریں صورت طالبان اور پاکستان بیک وقت کمزور ہوتے ہیں جن کا بالآخر فائدہ حملہ آور مذکور قوتوں کو میسر آئے گا۔ پاکستان طالبان کی نسبت کمزور تر صورتحال سے دوچار ہے کیونکہ پاکستان کے حملہ آور حلیف اور دوست ناقابل اعتماد ہیں جبکہ طالبان جنوبی ایشیاء میں تین علاقوں میں بکھرے ہوئے یعنی افغانستان‘ پاکستان کے قبائلی علاقے اور پاک و ہند کے مظلوم مسلمان جو قومی و ملی نظریات کے تحت ان کے حامی و ناصر ہیں علاوہ ازیں طالبان کو عالم اسلام کے عمومی اور مختلف تحریک حریت کے مجاہدین کے علاوہ جنوبی ایشیاء میں بسنے والے 5 ہزار سال سے محروم و مظلوم کروڑوں چھوت اقوام کی خاموش حمایت بھی میسر ہے کیونکہ اچھوت اور اقوام کا خیال ہے کہ اگر خطے میں اسلام ایک طاقتور مذہب اور حکمرانیت کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے تو ان کو بھی قرآن و سنت پر مبنی انسانی مساوات ایک عظیم اور قومی وحدت اورملی اخوت کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کی صورتحال پوزیشن بھی زیادہ مضبوط نہیں بھارت خلیج میں حملہ آور امریکہ اتحادی ممالک کا نظریاتی و فطری اور سٹریٹجک حلیف ہے جبکہ امریکی دبائو پالیسی کے زیر اثر پاکستان کے حکمران بھارت کو خطے کی بڑی قوت اور تجارتی منڈی سمجھ بیٹھے ہیں حملہ آور امریکہ و اتحادی کو بھارت نواز پاکستان قبول ہے۔
 اسلام پرست پاکستانی کسی طور بھی تسلیم نہیں۔ اگر امریکہ کو خطے میں پاکستان کی سرکاری سیکولر پالیسی سے کامیابی میسر آنا ہوتی ‘ تو کب کی میسر آ جاتی پاکستان کی سر زمین اور عوام حکمرانوں کی دین بیزار پالیسی اور مزاج کے باوجود اللہ و رسولؐ سے غیر مشروط اور لامحدود محبت کرتے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ امریکی تھی مگر اب پاکستان کی اپنی جنگ بن گئی ہے۔ کیونکہ حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کے پاک افغان خطے بشمول قبائلی علاقہ جات کو محاذ جنگ بنا دیا ہے لہذا پاکستانی امریکی دبائو کے تحت امریکہ کے ناپسندیدہ پاکستانی شہریوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور یہ جنگ خانہ جنگی بن گئی ہے جس میں پاکستان کی افواج آئی ایس آئی ‘ وغیرہ شدید کمزور ہو جائیں گے یہ حقیقت ہے کہ جنگ کے دوران ملکی معیشت بگرتی ہے‘ سنورتی نہیں پانی‘ بجلی‘ گیس کی نایابی کے حوالے ہو گئے عام شہری کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو گئی خواص اپنے حق میں قانون سازی کر لیتے ہیں اور پاکستان کے محافظ ادارے سکیورٹی فورسز اور عوام الناس گوریلا دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلیک واٹر سرگرم ہے۔ سی آئی اے وغیرہ اعلان کر چکے ہیں کہ امریکہ کا انٹیلی جنس نیٹ ورک (آپریشنل) مکمل ہے اب امریکہ کو پاک فوج اور آئی ایس آئی کی ضرورت نہیں وہ اپنے اہداف کے حصول میں خود کفیل ہیں۔
آج پاکستان کا فوری اور بنیادی مسئلہ دہشت گردی بن گیا ہے موجودہ حکومت طالبان سے امن مذاکرات کی خواہاں اور ڈرون حملوں کی مخالف ہے۔ پاکستان طالبان تحریک سے معاملات تقریباً طے پا گئے تھے کہ امریکہ نے طالبان سربراہ حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملوں میں شہید کر دیا اگر پاکستان جنگ کرتا ہے۔ دونوں حریفوں کا جیتنا محال ہے مگر نتیجتاً دونوں حریف اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ حکیم اللہ محسود کو کو مارنے والے حملہ آور کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان کے پاس طالبان کے خلاف لڑنے کا عزم‘ فوج اور آئی ایس آئی دیگر انٹیلی جنس اور سکیورٹی ادارے ہیں کیا عزم اور حوصلہ کامیاب ہو جائے گا۔ مسلم الجزائر فرانس کی استعماری کالونی تھا الجزائری عوام آزادی کے متوالے تھے۔ خودکش حملوں میں فرانسیسی آبادکاروں اور فوجیوں کو مارنے لگے فرانس کی جمہوری حکومتیں الجزائر کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہیں اور بالآخر فرانسیسی پارلیمان نے جنرل ڈیگال کو الجزائر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے آمرانہ حقوق دیئے تو معاملہ سدھرا۔
اگر کابل اور پاک افغان قبائلی علاقوں کی تاریخ غیر جانبداری سے دیکھی جائے تو مذکورہ خطے کے شہری اپنی تاریخ کے قیدی ہے یہ غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں کرتے یہ ہتھیار نہیں ڈالتے مر جائیں گے مگر غیر ملکی دشمن سے جیت تک لڑتے رہتے ہیں سکندر اعظم نے ہندوستان فتح کیا مگر کابل و قبائلی سرداروں کو معاوضہ دے کر محفوظ راہداری حاصل کی جدید تاریخ میں روس اور برطانیہ نے شکست کھائی امریکہ کی دانت بھی کھٹے ہو چکے ہیں مگر امریکہ و اتحادی ممالک بشمول بھارت کا ہدف ہے کہ وہ پاکستانی افواج کو ان سے لڑا کر کمزور کر دے اگر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی وغیرہ نہیں تو سرکار بھی کاغذی پیرہن رہ جاتا ہے۔ لہذا دانشمندی کیا ہے کہ امن مذاکرات یکسوئی کے ساتھ کئے جائیں اور ہر قسم کا غیر ملکی دبائو اور مداخلت کا تدارک کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن