واشنگٹن (صباح نےوز+ اے ایف پی+ رائٹرز+ بی بی سی) امریکہ کے صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان سے لیکر فرانس تک دہشت گردی کانشانہ بننے والے تمام متاثرین کے ساتھ کھڑے ہےں، دہشت گردوں کا پیچھا کرتے رہیں گے اور ان کا نیٹ ورک ختم کردیںگے۔ پشاور سکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انکا خاتمہ کرینگے۔ جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت متاثر ہوئی، اب ہم یہ صورتحال بدل دینگے، دنیا کی حفاظت کیلئے ہمیں اپنی پوری طاقت استعمال کرنی چاہیئے ۔ امریکہ جہاں دہشت گردی کا خطرہ محسوس کریگا وہاں یکطرفہ کارروائی کاحق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ ان کی حکومت کو مشرقِ وسطیٰ میں داعش کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے۔ واشنگٹن میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس ”سٹیٹ آف دی یونین“ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ان کا ملک اپنے قائدانہ کردار اور فوجی طاقت کے ذریعے عراق اور شام میں داعش کی پیش قدمی کامیابی سے روک رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایک اور زمینی جنگ میں کودنے کے بجائے مشرقِ وسطیٰ میں داعش کا زور توڑنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے ایک ایسا بین الاقوامی اتحاد قائم کیا ہے جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ ان کی انتظامیہ شام میں بھی حزبِ اختلاف کے معتدل گروہوں اوردنیا بھر میں پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگوں کی مدد کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ان کوششوں کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا لیکن انہیں یقین ہے کہ یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کی منظوری دے کر دنیا کو یہ پیغام دے کہ امریکہ شدت پسندی کے خلاف یکسو اور متحد ہے۔ امریکی صدر نے امریکہ کی داخلی صورتِ حال، خارجہ پالیسی، امریکی معیشت اور اپنی صدارت کے باقی ماندہ دو برسوں میں اپنی حکومت کی ترجیحات سمیت کئی معاملات، مسائل، اہداف اور اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد یہ پہلا ”سٹیٹ آف دی یونین“ ہے جب افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن مکمل ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی دو نسلوں نے خطرناک اور مہنگی جنگیں دیکھی ہیں۔ صدر نے کہا کہ افغان جنگ کے خاتمے کے باوجود امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھے گا۔صدر اوباما نے ایک بار پھر واضح کیا کہ امریکہ پر دنیا میں جہاں سے بھی دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہوگا وہاں واشنگٹن ازخود کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی نوجوانوں کو بہتر مستقبل اور روزگار دینے، ملازمین کی تنخواہوں اور سہولتوں میں اضافے اور مرد و خواتین ملازمین کو یکساں مواقع اور وسائل فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ نے ہر دور میں مشکل فیصلے کیے ہیں اور اب بھی داخلی اور خارجی محاذ پر درپیش حالات امریکی قیادت سے سخت فیصلوں کے متقاضی ہیں۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے جوہری تنازع کے حل کے لئے جاری سفارت کاری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد اب امریکہ کو کیوبا کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی براہِ راست تصادم سے گریز کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں آج روس عالمی برادری میں تنہا رہ گیا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پینٹاگون“ سمجھتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ایک براہِ راست خطرہ بنتی جارہی ہیں، لہٰذا ماحولیات کے بارے میں پالیسی وضع کرتے ہوئے ہمیں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ہوگی۔ انہوں نے مختلف عالمی مسائل پر دوسرے ملکوں کے ساتھ اتحاد بنانے اور مشترکہ حکمتِ عملی تشکیل دینے کی اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ امریکی صدر نے ارکانِ کانگریس پر زور دیا کہ وہ امریکیوں کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرنے میں ان کی حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کساد بازاری کے اثرات سے باہر آرہا ہے اور معیشت ترقی کر رہی ہے، اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کانگریس پرزور دیا کہ وہ سائبر حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرات اور آن لائن معلومات کی چوری کے تدارک کے لیے بھی ضروری قانون سازی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی دوسرا ملک اور ہیکر امریکی نیٹ ورکس کو بند کرنے، اس کے تجارتی راز چرانے اور امریکی شہریوں کی نجی معلومات چرانے کے قابل نہ رہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سائبر حملوں اور خطرات کو بھی اتنی ہی اہمیت دے رہی ہے جتنی دہشت گردی سے مقابلے کو دی جارہی ہے۔اگر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو امریکی قوم اور معیشت خطرات کا شکار رہے گی۔ بی بی سی کے مطابق اوباما نے ’سٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں وقت لگے لگا لیکن ان کا ملک جس وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہا ہے وہ اس شدت پسند گروپ کو کمزور کر کے بالاخر شکست دے دے گا۔ اوباما نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی قیادت میں اتحاد دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی روک رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر جگہ ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی کے نظریے کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ ’میں آج کانگریس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ دنیا کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دینے کی قرارداد منظور کر کے دکھا دے کہ ہم اس مشن میں ساتھ کھڑے ہیں۔‘ اوباما نے گذشتہ برسوں کی مالیاتی بدحالی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ایسی نئی معاشی پالیسیوں کا وعدہ کیا ہے جس سے تمام امریکی مسفید ہو سکیں گے۔ مبصرین کے مطابق صدر اوباما کے اس سالانہ ’سٹیٹ آف دی یونین‘ صدارتی خطاب کا مقصد امریکہ کے متوسط طبقے کے خاندانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا تھا اسی لیے انھوں نے خطاب میں اس طبقے کے لیے اپنی پالیسیوں کے خدوخال کی وضاحت کی۔ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ان کی نئی پالیسیوں سے مستفید ہونے کا انحصار ’اب اس بات پر ہے کہ ہم آئندہ پندرہ برسوں میں کیا بننا چاہتے ہیں۔ اوباما نے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کو بند کرنے کا عزم دہرایا۔ امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ کام ختم کرنے کا وقت ہے اور میں اسے بند کرنے کے بارے میں اپنا عزم متزلزل نہیں ہونے دوں گا۔ ایران کے جوہری پروگرام پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ’ہمارے پاس ایک ایسا جامع معاہدہ کرنے کا موقع ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے بچاتا ہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے اتحادیوں کو محفوظ بناتا ہے۔ امریکی کانگریس کی جانب سے ایران پر نئی پابندیوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اسوقت پابندیوں کی کوئی توجیہ نہیں اور وہ کسی بھی ایسے بل کو ویٹو کر دیں گے جو موجودہ مذاکراتی عمل کے لیے خطرہ بنے گا۔ اوباما نے یہ بھی کہا کہ ’اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس سلسلے میں مذاکرات کامیاب ہی ہوں گے اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کیلئے تمام آپشن موجود ہیں۔ رائٹرز کے مطابق اوباما نے کہا کہ ایشیائی تجارت کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار چین نہیں بلکہ امریکہ کے پاس ہونا چاہئے اور اس حوالے سے کانگریس حکومت کو معاہدوں کے حوالے سے زیادہ فری ہینڈ دے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکیوں کو آنیوالے وقت میں چین کے حوالے سے کم فائدہ ہوگا۔
صدر اوباما