کہاوت ہے ”اوچھے کے ہاتھ تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر“یہ کہاوت مجھے قدم قدم پر یاد آتی ہے جب میں کسی سرکاری ادارے میں جاتا ہوں اور ان کے ذمے داروں کی باتیں سنتا ہوں۔ پچھلے دنوں محکمہ بحالیات فرید کوٹ ہاﺅس جانے کا اتفاق ہوا دیکھا کہ بے شمار لوگ جمع ہیں ان میں سے اکثر کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو بحالیات کے کسی سابق فیصلے کی نقل مطلوب تھی جس پر انہیں مہینوں سے چکر لگوائے جا رہے تھے۔ اللہ اللہ کرکے جب مطلوبہ مراحل طے ہوئے تو نقل دینے کے بجائے انہیں کہا گیا کہ اب تین سینئر ممبرز پر مشتمل ایک Verification Committee کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور ان کا فیصلہ حتمی ہوگا کہ نقل دینی ہے یا T.O ہی منسوخ کر دینا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ متروکہ جائیداد جو غیر مسلم پاکستان میں چھوڑ گئے تھے اور جو مسلمان بھارت میں چھوڑ آئے تھے وہ دونوں حکومتوں کی ملکیت نہیں ہے وہاں سے آجانے والے اور یہاں سے جانے والوں کو ملنی چاہیے تھی۔ بھارت نے تو 1955ءمیں یہ باب ہمیشہ کیلئے بند کر دیا اور جس کو جو جائیداد مل گئی غلط یا صحیح اسے فائنل سمجھا گیا لیکن پاکستان میں محکمہ ختم ہونے کے باوجود بورڈ آف ریونیو کے تحت یہ محکمہ جس میں سینکڑوں ملازمین کام کر رہے ہیں اور جس کا ایک چیف سیٹلمنٹ کمشنر بھی موجود ہے مسلسل مصروف عمل ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں جاری کردہ تمام متروکہ جائیداد کے T.O منسوخ کر دیئے جائیں گے اور نئے سرے سے الاٹمنٹ اور ٹرانسفر کا کام شروع کیا جائے گا۔ جس کیلئے کم از کم سو سال تو مزید درکار ہوں گے ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ تب مجھے شدت سے احساس ہوا کہ انگریزوں نے اپنی سلطنت ہند میں پاکستان کے ان صوبوں کو ترقی ،تعلیم ،تربیت وغیرہ سے کیوں محروم رکھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی حملہ آور مغرب سے آئے ان کی مقامی حکمرانوں کیساتھ چھوٹی موٹی جنگ بھی نہیں ہوئی، جو بھی آیا اسے ”جی آیاں نوں“ کہا اس کی خدمت کی اور جب وہ آگے بڑھا تو اسے ”رب راکھا“ کہہ کر رخصت کیا۔ پانی پت کے میدان یا اس سے آگے مزاحمت نظر آتی ہے۔ آج 68 سال بعد ہمیں ان سوالوں کے عملی جواب نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان کے سردار، نواب اور وڈیرے جو انگریز وائسرے کے نمائندے کو سبی اسٹیشن سے بگھی میں بٹھا کر گھوڑوں کی جگہ خود کھینچ کر میلے میں لایا کرتے تھے، چند سو یا چند ہزار حسب مراتب انگریز سے انعام وصول کرنے پر خوش ہو جاتے تھے، یہی حال ہمارے قبائلی علاقوں کے ملک اور سرداروں کا تھا۔ وہ اس بات پر ہی خوش تھے کہ ہمارے علاقے میں پکی سڑک کے دائیں بائیں ہمارا حکم چلتا ہے ہم جسے چاہیں مار دیں، اغوا کر لیں یا ناجائز چرس وغیرہ کا کاروبار کریں۔ پکی سڑک اور پولیٹیکل ایجنٹ کو خوش رکھنا اور انکے حکم کی تعمیل کرنا ان کا فرض منصبی بن کر رہ گیا تھا۔ وقت کیساتھ ساتھ آبادی بہت بڑھ گئی اور تخریب کاروں کے منظم گروہ جرائم کے اڈوں میں تبدیل ہوگئے۔ پولیٹیکل ایجنٹ کی گرفت بھی ختم ہوگئی اور سردار، ملک بھی یرغمال بن کر رہ گئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شمالی وزیرستان سمیت فاٹا میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ رب العزت سے دعا ہے کہ یہ آپریشن کامیاب ہو اور فاٹا کے یہ علاقے ”علاقہ غیر“ نہ کہلائیں، KPK کا حصہ بنیں۔ ادھر پنجاب میں جو نسبتاً بہتر بودو باش رکھنے والا صوبہ تھا۔ برصغیر میں یہ اعزاز صرف پنجاب کو ہی حاصل تھا کہ یہاں پر یونینسنٹ پارٹی حکمران تھی، صوبے میں کوئی قابل ذکر صنعتی ادارہ نہ تھا گویا اس خطے کو انگریز نے اپنی فوج میں بھرتی کرنے کیلئے نوجوانوں کی پیداوار کیلئے رکھا ہوا تھا دوسری جنگ عظیم میں ہم نے یہ گیت بھی سنے کہ ”بم کا گولہ جب پڑے تو کود جائیو نہر میں“ تھوڑے تھوڑے پیسوں میں یہاں کے وڈیرے، تمن دار انگریز کو تازہ دم فوج کیلئے ”نوجوان“ پیش کیا کرتے تھے اور انہیں بدلے میں انعام و اکرام کے طور پر سرکاری زمینیں مربعوں کی صورت میں بخش دی جاتی تھیںجو آزادی کے بعد سے اب تک انکے قبضے میں ہیں جبکہ یہ بحق سرکار ضبط ہو جانی چاہیے تھیں۔ سندھ میں بھی تقریباً ایسا ہی ماحول تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پنجاب کے یونینسنٹ لیڈر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کا جو اثاثہ تھا وہ محدود تھا تقسیم برصغیر کے نتیجے میں انگریزوں کے تربیت یافتہ مسلمان افسران پاکستان چلے آئے جنہوں نے بڑی محنت اور دیانتداری سے (اُس وقت بددیانتی کا کوئی تصور نہ تھا) پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کو مکمل کیا، کراچی کو دارالحکومت بنایا بیرکوں میں دفاتر قائم کئے جو آہستہ آہستہ آگے چل کر ایک عظیم مسلم ریاست کی بنیاد بنے ایک نسل سے دوسری پھر تیسری نسل میں اقتدار منتقل ہوا اور تعلیم عام ہوئی تب انگریزوں کے غلام سیاہ و سفید کے مالک بننے والے سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے بدترین طرز حکمرانی اپنایا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غلامی کے دور کی حسرتیں انہوں نے سرکاری فنڈز کو بے دریغ اپنی ذاتی خواہشوں کو پور اکرنے پر لگا دیں۔ ایوب خان کے دور تک وفاقی وزراءکی تعداد گیارہ، بارہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کا کل خرچ ساٹھ کروڑ سے زیادہ نہیں تھا۔ اب آدھے ملک کے تقریباً سو کے قریب وزیر سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز وغیرہ کی ایک فوج نظر آتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی اسمبلی کا ایک دن کا خرچہ لاکھوں روپوں سے بڑھ کر کروڑوں پر پہنچ چکا ہے ایک ایک وزیر کے پاس ذاتی خدمت کیلئے سرکاری گاڑیاں اور ملازمین موجود ہیں، گھر کے سارے اخراجات بھی حکومت کے ذمے، علاج معالجے کیلئے دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں کروڑوں روپے سے علاج کروانے کی سہولت بھی انہیں حاصل ہے۔ مراعات کے نام پر اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے خزانہ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب فیصلے انہوں نے ملی بھگت سے خود ہی کر لئے ہیں۔ عوام کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے قوم مفلس ہوتی چلی گئی اور مفاد پرست نکمے اور نالائق حکمران کروڑ پتی سے ارب پتی بنتے نظر آئے۔ 1947ءمیں جس قوم پر ایک پیسہ کا قرض نہیں تھا وہ آج اربوں، کھربوں، ڈالر کی مقروض ہے۔
اوچھے کے ہاتھ تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر
Jan 22, 2015