بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑنا ایں

چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد مجھے اچانک بابا بلھے شاہ کا وہ شہرہ آفاق شعر یاد آیا…؎
بلھے شاہ آسمانی اڈدیاں پھڑنا ایں
جہیڑا گھر بیٹھا اونہوں پھڑیا ای نئیں
ہم نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کیلئے تو لنگوٹ کس لیا لیکن ہمارے اپنے گھر میں جو دشمن چھپا بیٹھا ہے اس کا قلع قمع کرنا ہی بھول گئے۔ قوم کو ہر دو تین ہفتے کے بعد ایک ٹویٹ کر کے عسکری سرکار بتاتی ہے کہ ضرب عضب کے فضائی حملے میں اتنے دہشتگردوں کو مارا ہے۔ اتنے ٹھکانے تباہ کئے ہیں اور اس قدر اسلحہ کی فیکٹریاں پکڑی گئی ہیں پس قوم کو مبارکباد ہو کہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ابھی یہ بیان اخبارات کی زینت بن کر عوام کے سامنے نہیں پہنچا ہوتا کہ دہشتگردوں کے لٹے پٹے قافلے نئے عزم کے ساتھ نئی جگہ پر داخل ہو کر پوری قوم کو سوگ میں ڈبو دیتے ہیں۔تاریخ میں یہ المیہ یاد رکھا جائیگا کہ یاجوج ماجوج کے جیسی ایک قوم تھی جو رات بھر دیوار کو چاٹ چاٹ کر اسے گرانے کی کوشش کرتی تھی اور صبح ہوتے ہی وہ دیوار اپنی پوری بلندی کے ساتھ دوبارہ موجود ہوتی تھی۔ ایسے ہی ہم دہشتگردوں کی کمر توڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ پھر سامنے آجاتے ہیں ، دہشتگردوں کی کمر توڑنا اب صرف خواب لگتا ہے۔ جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ہماری کمر توڑ دی ہے ، ایک ایک ہڈی توڑی ہے، بار بار توڑی ہے ہم اپنے گرد و نواح میں تباہ حال بستیاں، خستہ حال عمارتیں، زخم خوردہ تعلیمی ادارے، جاں بلب معیشت کو دیکھنے کی بجائے عرب اور ایران کے صدیوں پرانے مسئلے کو سلجھانے کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔امت مسلمہ کے دو عظیم ستون اور برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران آپس میں جھگڑ پڑے۔ عرب کہتے تھے کہ مشرق وسطی پر ان کا حق ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں سارا انہوں نے فتح کر کے اسکے کاغذات اپنے نام لگوا لیے تھے۔ ایرانی کہتے تھے کہ اس واقعے سے بارہ سو برس پہلے ایرانی شہنشاہ کوروش اعظم نے سارا علاقہ فتح کیا تھا اس لیے اس پر ان کا حق ہے۔ کوروش اعظم کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ فرمان ہے کہ یہ وہی بادشاہ ہے جسکا ذکر قرآن پاک میں (سکندر) ذوالقرنین کے نام سے آیا ہے۔اس قدر پرانے مسئلے کو ہم کس طرح سلجھا سکتے ہیں ۔ کاش ہم اس مسئلے کی نوعیت کا باریک بینی سے جائزہ لیتے اور پھر تاریخ کے اوراق کھنگھال کر اسکی حساسیت پر نظر ڈالتے۔ہمارا اپنا حال یہ ہے کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ اسکے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں لیکن اسکے باوجود ہم ہتھیار بند جتھوں کی منہ زوری کو لگام دینے میں ناکام ہیں۔ مٹھی بھر دہشتگردوں نے 18 کروڑ عوام کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ لیکن سیاسی و عسکری قیادت نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل کر رہی ہے نہ ہی انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کر سکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اولادیں تو محفوظ ہیں لیکن ذرا اس بوڑھے باپ سے تو جا کر پوچھیں جس کا بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔ اس ماں کے دکھ کا کون اندازہ کر سکتا ہے جس نے اپنے بچے کو سہرے لگانے کا ارمان دل میں سجا رکھا تھا۔ حکومت کی چند ٹکوں کی امداد اس عورت کی تکلیف کا ازالہ نہیں کر سکتی جس کا سہاگ اسے تنہا چھوڑ کر اس دنیا میں چلا گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اس بھائی پر کیا بیت رہی ہو گی جس کا بازو کٹ گیا؟ ہم نے لاکھوں انسانوں کے جنازے اٹھا لئے ہیں۔ لیکن ابھی تک ہم دہشت گردی کی وجوہات کا جائزہ لینے میں ناکام ہیں۔ گرتی لاشوں، تڑپتے زخمیوں، گولیوں، بم دھماکوں، آہوں اور سسکیوں میں ہمارے بچے کیسے تعلیم حاصل کر سکیں گے؟ ایک معصوم بچہ آج بھی کہتا ہے کہ ماں مجھے علم کے عَلم کو بلند کرنا ہے لیکن ماں جب یہ دیکھے گی کہ ان درسگاہوں سے تو بچے پڑھ کر واپس نہیں آتے بلکہ جنازے ہی اٹھانے پڑتے ہیں تو وہ اپنے نونہالوں کو کیسے تعلیم کیلئے بھیجیں گی؟ ہماری بستیاں کھنڈر اور انسانوں کے برخچے اڑ رہے ہیں اسکے باوجود ہم 2416 کلومیٹر لمبی ڈیورنڈ لائن محفوظ نہیں بنا سکے۔ اگر افغانستان کے اندر سے حملہ آور آ رہے ہیں تو بارڈر کو تار لگا کر سیل کردیں۔ دہشتگردوں نے اگر ہماری چوکھٹ پر سر جھکانے سے انکار کر دیا ہے تو پھر انہیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے سے گریز کیوں؟ پرچم سرنگوں کرنا ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا، شہداء کے لواحقین کو چند لاکھ روپے دینا۔ مرنے والوں کی قبروں پر پھول چڑھانا یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ امریکہ نے ایک نائن الیون کے بعد اپنی سرزمین کو ایسا محفوظ بنایا کہ چڑیا پَر نہیں مار سکتی جبکہ ہمارے ہاں ہر روز نائن الیون ہوتے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ہم آج تک اپنے قوم و ملک کو محفوظ نہیں بناسکے۔جس وقت تک ہم دہشتگردی کے اسباب کا جائزہ لیکر ا سکی ’’نرسری‘‘ کا خاتمہ نہیں کرینگے تب تک بم دھماکے، خودکش حملے اور افراتفری ختم نہیں ہو گی۔ آج بھارتی گود میں پلنے والا شمالی اتحاد تخت کابل پر براجمان ہے۔ سرحد پار دشمن کے 14 قونصل خانے ہیں اور بھارت وہاں پر دندناتا پھرتا ہے۔ سابق افغان چیف رحمت اللہ نبیل کو بھارتی (را)کی سرپرستی حاصل ہے وہ ہی پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے ۔اسی نے ملا عمر کے انتقال کی خبر لیک کی تھی۔ مری مذاکرات کی خبر بھی اسی نے بھارت کو دی تھی۔تخت کابل پر قابض اشرف غنی اگر اپنے سابق چیف اور اپنی طرف سے قاتل جتھوں کو روک نہیں سکتے تو پھر ہمیں افغان طالبان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر انہیں یہ ذمہ داری سونپنی چاہیے۔ اگر تاپی گیس پائپ لائن کی حفاظت کیلئے ان سے بات کی جا سکتی ہے تو پھر سرحد پار دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو فتح کرنے کیلئے کیوں نہیں ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور عسکری سے زیادہ سیاسی طور پر مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔ افغان طالبان نے شمالی اتحاد کے سرپرست ایران کیساتھ دوستی کا ہاتھ ملا لیا ہے تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں ملائیں گے؟ قوم اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھے دینے سے اب عاجز آچکی ہے۔ یاد رکھیں جب ہاتھ باگ پر نہ رہے اور پائوں رکاب میں نہ ہوں تو اسپ اپنا راستہ خود بناکر منزل کا تعین کرتا ہے اس لئے اگر حکمرانوں نے دشمن کو دھول نہ چٹائی تو یہ قوم خود میدان میں نکل آئیگی اور پھر اسے گھروں میں واپس بھیجنا ناممکن ہوگا۔ آج ہماری قومی سلامتی دہکتی دھوپ میں برف کی سیل کی طرح ہے ایک پریشان حال پژمردہ اور اداس قوم نے اگر اسکی حفاظت کیلئے ہتھیار تھامنے ہیں تو پھر حکمران خود فیصلہ کریں کہ وہ کس مرض کی دوا ہیں؟

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...