اگرچہ فاٹا اور پاکستان کے دیگر مختلف صوبوں میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن دہشت گردوں کے بقایا جات ابھی تک یہ صلا حیت رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ گزشتہ روز چار سدہ یونیورسٹی میں کیا گیا ہے 2 طالبات سمیت 18 طلبہ اور 2 سکیورٹی گارڈ شہید ہو گئے اور بیسیوں زخمی حالت میں مختلف ہسپتا لوں میں داخل ہیں میں اس کالم میں اس سانحہ کی مزید تفصیلات میں نہیں جاؤں گا لیکن یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سانحہ چار سدہ نے 16دسمبر 2014 کے آرمی پبلک سکول پشاور کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے پاکستانی قوم، حکومتِ وقت اور ضرب عضب میں عظیم کا میابیاں حاصل کرنیوالی پاکستان آرمی کو یہ باور کرانے کی کو شش کی ہے کہ دہشت گرد ابھی تک فنا نہیں ہوئے اور اُن میں اتنا دم خم باقی ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ اُنہوں نے چار سدہ یو نیورسٹی میں کیا ہے۔ حکومتِ پاکستا ن اور ISPR کی طرف سے سانحہ چار سدہ کے بارے میں پس منظر اور دہشت گردوں کے محرکات کے علا وہ کون کون سے دیگر اندرونی و بیرونی فیکٹر ز کارفرماں ہیں راقم سانحہ چار سدہ پر حقائق کی عدم موجودگی میں تفصیلی جائزہ پیش کرنے سے قا صر ہوں لیکن دو با تیں خصو صی طور پر حکومت کے متعلقہ شعبوں کو عر ض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں :
٭ اول یہ کہ سانحہ چار سدہ کسی ایک فرد یا دہشت گرد تنظیم کی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سانحہ کی نوعیت اور شدت اس قسم کے ما ضی کے واقعات سے مختلف اور زیادہ منظم اندا ز میں ماسٹر مائنڈ کیا ہوا صاف نظر آتا ہے جس کے پیچھے کوئی واضح مقصد ہے جس کیلئے اعلیٰ ترین سطح پر بڑھ چڑھ کر وسائل اور خا ص طور پر ٹریننگ حا صل شدہ ارکان کو منتخب کیا گیا ہے جو جان کی بازی لگا کر یو نیورسٹی داخل ہوئے اور کئی گھنٹوں تک حکومتی ٹیمیں اُن پر غالب نہیں آ سکیں۔ اسکی کھو ج لگا نے کیلئے ملک کے اندر اور با ہر مختلف ممکنہ اداروں اور ممالک پر ہماری چوٹی کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈ کی تلا ش کر نا ہو گی۔
٭ دوئم یہ سانحہ چار سدہ یو نیورسٹی تک ہی محدود سمجھ کر باقی یو نیورسٹوں اور تعلیمی اداروں کو اپنے روزمرہ کے کام میں حسب معمول مصروف ہو جانا نہ صرف مجرمانہ غفلت بلکہ حقیقت سے آنکھیں چھپا کر دہشت گردی کو اپنے اپنے اداروں میں دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔
مجھے یقین ہے کہ حکومتِ پنجاب جو اس سے پہلے بھی دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے اور امن وامان کی بحالی کیلئے پنجاب کے دن رات سر گرم وزیر اعلیٰ جناب میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں تعلیمی اداروں کی بہتری میں خصو صاً ذاتی دلچسپی لیتے ہیں وہ اِن اداروں کی دہشت گردی کا شکار ہونے سے دفاع کیلئے کسی امکانی سانحہ کی روک تھام کیلئے یقیناً کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرینگے اور حالیہ سانحہ چار سدہ کے بعد حفاظتی تدابیر کو مزید فول پروف بنا نے کیلئے مزید نہ صرف احکامات جاری کرینگے بلکہ اُنکے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے اس نا زک اور حسا س مسئلہ پر ذمہ داریاں متعلقہ صوبائی حکا م تک محدود رکھنے کی بجائے چند ایک اہم یو نیورسٹیوں اور دیگر اداروں کا جن میں مردوں اور خواتین دونوں کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ خادمِ پنجاب خود ذاتی طور پر ان اداروں کا سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ ترین حکام کیساتھ ذاتی، ہنگامی طور پر دورہ فرما کر تسلی کرینگے تاکہ جہاں کہیں بھی جو خامیاں پائی جاتی ہیں وہ فوری طور پر دور کی جائیں۔
اس سلسلہ میں اخبارات کی تازہ ترین خبروں سے ظاہر ہو تا ہے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی یو نیورسٹی میں چوٹی کی سطح پر اگلی چند رو ز میں تبدیلیاں زیر غور ہیں۔ ایسی تبدیلیاں حالت امن میں نہ صرف ضروری ہیں بلکہ بعض اوقات بہتری کا بھی باعث بنتی ہیں لیکن پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں اور یو نیورسٹیوں تک پھیلا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کر نے اور ہر لیول کے افسران بالا اور اُنکے خاندانوں کے ہو ش و حواس پر اثرانداز ہونے کیلئے اُنکے بچوں کو جو زیر تعلیم ہیں دہشت گردوں نے اپنا ہدف بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہر سطح کے عوام کی زندگی میں ایک طوفان بر پا کیا جائے۔ یو نیورسٹی آف دی پنجاب جس میں چالیس ہزار طلبا ء زیر تعلیم ہیں اور اساتذہ و ایڈمنسٹریشن کے شعبہ میں ڈیرھ ہزار سے او پر پروفیسر اور دیگر اساتذہ شامل ہیں۔ اس یو نیورسٹی میں خدا نخواستہ اکم بدہن اگر کوئی معمولی سا دہشت گردی کا واقعہ بھی رونما ہو گیا تو انتہائی خوفنا ک نتائج برآ مد ہو سکتے ہیں۔