وزیراعظم محمدنوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا، اس دورے کا بنیادی مقصد دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا اور مصالحتی کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے جس بنا پر اس دورے کو مصالحتی مشن بھی کہاجاسکتاہے گزشتہ ماہ سعودی عرب میں ایک شیعہ مذہبی رہنما کو سزائے موت دیئے جانے کے بعد ایران کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے کو آیا جس کے نتیجے میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیاگیا، اس کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیئے اور کشیدگی میں بتدریج اضافہ ہوتاگیا، اس ساری صورتحال نے خلیج اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں کشیدگی کو جنم دیا جس سے مسلم امہ میں تشویش کی لہر دوڑگئی، مسلم دنیا نے بالخصوص اور دیگر دنیا نے بالعموم اس تنازعے پر تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ممالک پر کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز پر زور دیا، مسلم امہ کی طرف سے اظہار توکیاگیا مگر یہ سب صرف بیانات کی حد تک ہی رہا اور کسی طرف سے عملاً اس کشیدگی کو کم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیاگیا جس سے اسلامی ممالک کے مابین اتحاد یگانگت کے شدید فقدان کی عکاسی ہوئی ہے، اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی جانب سے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا اور مزید خطرناک رجحان یہ دیکھنے میں آیا کہ اس تنازعے کو فرقہ وارانہ کشیدگی کا رنگ بھی دیاجانے لگا جس سے صورتحال میں مزید بگاڑ کا خطرہ پیدا ہونے لگا، اس ساری صورتحال نے پاکستان کیلئے بالخصوص ایک مشکل صورتحال پیدا کردی کیونکہ ہمارے دونوں ممالک کیساتھ دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں سعودی عرب کے ساتھ ہمارے کئی دفاعی معاہدے ہیں مزیدبرآں تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب پاکستانی حصول معاش کی خاطر وہاں مقیم ہیں اور اسکے علاوہ سعودی عرب نے ہرمشکل وقت میں پاکستان کی ہمیشہ بھرپور مدد کی ہے دوسری جانب ایران ہمارا ایک ہمسایہ اسلامی ملک ہے جسکے ساتھ ہمارے تاریخی روابط ہیں مزید برآں دونوں ممالک کے ایک دوسرے کیساتھ معاشی اور دفاعی مفادات بھی منسلک ہیں اگر فرقہ وارانہ تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک سنی اکثریت والی اسلامی ریاست ہونے کے بعد ہمارے ہاں ایک بہت بڑی تعداد میں اہل تشیع بھی آباد ہیں جو کہ کسی نہ کسی صورت میںاس ساری صورتحال سے متاثر ہوسکتے ہیں ملک دشمن عناصر بھی ہر وقت اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھانے کیلئے مصروف عمل رہتے ہیں جس کیلئے انتہا پسندانہ فرقہ وارانہ مذہبی گروہوں کا استعمال کیاجاتاہے صورتحال کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ غیرجانبدار رہتے ہوئے دو مسلمان ممالک کے درمیان مصالحت کی مخلصانہ کوشش کی جائے جوکہ ہرپاکستان کی بھی خواہش ہے پاکستان نے ماضی میں بھی امہ کے اتحاد کیلئے ہمیشہ مخلصانہ کوششیں کی ہیں جس کی ایک واضح مثال ایران عراق جنگ کے دوران اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کا قابل ستائش کردار تھا جس کو ہر طرف سے سراہا گیا،آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا اس دورے میں ساتھ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کوششوں میں سول عسکری قیادت بھرپور طریقے سے متفق ہے اس طرز عمل سے ان عناصر کویقیناً دھچکا لگا ہوگا جو ہر وقت حکومت اور فون کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایرانی قیادت کو بھی یہ پیغام دیاگیاہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کونہ صرف اس ساری صورتحال پر تشویش ہے بلکہ وہ کشیدگی کاجلدازجلد خاتمہ چاہتی ہے یہ بات اور بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کی طرف سے یہ کوشش کسی کے کہنے پر نہیں کی جارہی بلکہ پاکستانی عوام کی شدید خواہش کی عکاس ہے سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں نے بھی پاکستان کے اس کردار کو خوش آمدید کہاہے جو دونوں ممالک کی جانب سے ہمارے اوپر اعتماد کا مظہر ہے ریاض اور تہران میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے دونوں ممالک کے سربراہان سے مفید بات چیت کی ہے جس کے کچھ حوصلہ افزاء نتائج بھی سامنے آئے ہیں اب امید رکھنی چاہیے کہ آئندہ آنیوالے دنوں میں صورتحال میں مزید بہتری آئیگی اور خطہ کشیدگی سے محفوظ رہے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کے اس عمل سے نہ صرف ذاتی تدبر اور بصیرت کا اظہار ہوتاہے بلکہ پاکستان کا امیج بھی بہت بہتر ہوا ہے پاکستان کا مسلم امہ میں ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار رہاہے اوریہ دورہ اسکے عین مطابق تھا اس سے بین الاقوامی سطح پرنہ صرف ہمارا تشخص بہتر ہوا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی بے چینی میں کمی واقع ہوئی ہے آج اسلامی دنیا جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس میں آپس کی کشیدگی کا کسی طور بھی متحمل نہیں ہوا جاسکتا باہمی اتحادویگانگت سے ہی حالات کا مقابلہ کیاجاسکتاہے اس دورے کے دوران سعودی عرب کی سربراہی میں دہشتگردی کے خلاف قائم ہونے والے 34ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور کردار پر بھی بات چیت ہوئی، پاکستان نے یہ واضح کیا ہے کہ اس کا کردار صرف دہشت گردی کیخلاف جنگ تک محدود ہے اور ہم کسی دوطرفہ تنازعہ کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے بہت سی غلط فہمیوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا بھی اس صورتحال کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور کسی قسم کا ہیجان پیدا کرنے سے اجتناب کیاجائے مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم اور آرمی چیف کی اس مدبرانہ اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق کوششوں کو ہرسطح پر سراہنا چاہیے کیونکہ اس سے ایک طرف پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا تو دوسری طرف عالم اسلام کسی مزید بحران سے بچ جائیگا اس طرح کا کردار ہمیشہ کیلئے تاریخ کا ایک یادگار اور کامیاب باب بن جاتاہے اور ہماری عسکری قیادت کی فہم وفراست اور جرات مندی کابول بھی بالاہوگا۔