اب سائنو ایشیا ورلڈ آرڈر

دوسری عالمی جنگ سے پہلے دنیا Multipolarتھی یعنی بہت ساری طاقتیں جیسے برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، روس ،جاپان ، امریکہ عالمی طاقتوں کا درجہ رکھتی تھیں ۔ جنگ کے اختتام پر صرف امریکہ اور روس عالمی طاقت کی حیثیت برقرار رکھ سکی۔ اس دنیا کو Bipolarیعنی دو عالمی دنیا کہا جاتا ہے ۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوتے ہی امریکہ اور روس جو کہ جنگ کے دوران جرمنی کے خلاف ایک اتحادی کی شکل میں لڑے، آپس میں سرد جنگ کی شکل میں برسرِ پیکار ہو گئے ۔ جی ہاں قارئین !عالمی سیاست کس تیزی اور شدت سے بدل جاتی ہے اس کی مثال کولڈ وار سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتی:۔ دو حلیف حریف بن گئے ۔ یہ کولڈ وار تقریباً 1990یعنی روس کے ٹوٹنے تک جاری رہی ۔ یہ جنگ سرد صرف اس حد تک تھی کہ روس اور امریکہ کا آپس میں ایک معاہدہ تھا؛ وہ ایک دوسرے پر براہ راست حملہ نہیں کریں گے ،بالخصوص ایٹمی حملہ ؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دونوں ملک صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ۔ اس غیر تحریری سمجھوتے کو (Mutually Assured Destruction) MAD کہتے ہیں۔ قارئین ذرا غور فرمائیں تو آپ کو اندازا ہوگا کہ اصل عالمی جنگ سرد جنگ ہی تھی۔ جس کے نتیجہ میںایشا، یورپ ، افریقہ اور امریکہ یعنی تمام دنیا اس کا شکار تھی۔ جنگ صرف ایک نظریہ کی وجہ سے لڑی جا رہی تھی یعنی روس اشتراکیت کے نظام کو دنیا میں طرزِ مذہب پرپھیلا نا چا رہا تھا جبکہ امریکہ اس کو روکنا چا رہا تھا۔ افغانستان ، ویتنام سرد جنگ کو گرم ترین ثابت کرتے ہیں۔ جہاں عشروں پر محیط میدانِ جنگ برپا ہوئے ،ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے ۔ مگر چونکہ روس ، امریکہ براہ راست نہیں ٹکرائے تھے اس لئے اسے سرد جنگ کہا جاتا ہے ۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے صدر بش سینئر نے دنیا کو ایک بارعب حکم نما پیغام دیاکہ دنیا میں اب نیو ورلڈ آرڈر چلے گا۔ لفظ آرڈر کا مطلب حکم تو نہیں مگر بعد میں ثابت ہوا کہ حکم سے کم بھی نہیں تھا۔ اس کا مقصد صرف ایک تھا کہ اب دنیا جس طرز پر جیے گی اور چلے گی اس کی ترتیب امریکہ دے گا ۔ واضح رہے کہ یو ایس اے بر اعظم شمالی امریکہ کا حصہ ہے اور شمالی اور جنوبی امریکہ کو ملا کر نیو ورلڈ یعنی نئی دنیا کہا جاتا ہے ۔جبکہ ایشیا ، یورپ اور افریقہ کو ملا کر اولڈ ورلڈ یعنی پرانی اور اصل دنیا کہا جاتا ہے ۔ دنیا میں سے سے پہلی ایمپائر رومنز کی تھی اس کے بعد دنیا میں جو آرڈر یہاں آرڈر سے مراد لیڈ کرنا ہے ۔ سب سے پہلے یونان ، پھر رومن ، مسلم دور پھر یورپی نشاۃِ ثانیہ جیسی طاقتیں راہنمائی کرتی رہی۔ گویا دنیا کے تمام آرڈر پرانی دنیا سے ہی آتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا میں صرف ایک طاقت بچی اور جس کا تعلق نیو ورلڈ سے تھا اسی لیئے اسے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا گیا۔ نیوورلڈ آرڈر کے تحت امریکہ نے تہذیبوں کے تصادم کے خدشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روس کے ٹوٹنے کے بعد مسلم دنیا کو ایک حریف جانتے ہوئے دھر لیا تھوڑا غور کریں عراق پر حملے سے شروع ہونے والا سلسلہ اب تک تقریباً تمام مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور مسلم دنیا ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جس کو آگ لگی ہوئی ہے اور اس میں سوراخ بھی ہے۔ آگ اگر بیرونی طاقتوں نے لگائی ہے تو سوراخ مسلم دنیا کے خود ساختہ خاندانی آمرمفید احمقوں کے طور پر کر رہے ہیں۔ آپ مزید غور کریں سوائے افغانستان کے سرد جنگ کے دوران پوری مسلم دنیا پر امن تھی ۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بن چکا ہے اور 2025تک دنیا کی پہلی معاشی قوت بن جائے گا یعنی امریکہ سے بڑی معاشی طاقت چین ہوگا۔ چونکہ چین عسکری طور پر بھی برابری کے ساتھ ابھر رہا ہے اسلئے ایک مکمل سپر پاور کے طور پر امریکہ کے مقابل آچکا ہے اور دنیا دوبارہ Bipolarہو چکی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت رقبہ کے اعتبا ر سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس امریکہ کے مقابل تھا اس بار آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک جسے براعظمی ملک بھی کہتے ہیں چین اس کے مقابل ہے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس رکھنے والا ملک ہے جس کی تعداد نہ صرف پورے یورپ سے زیادہ ہے بلکہ اگر امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو بھی چین کی مڈل کلاس زیادہ بڑی ہے۔ مڈل کلاس معیشت دانوں کے مطابق کسی بھی ملک کی معاشی مضبوطی کا سب سے بڑا معیا ر کے ساتھ ہتھیار بھی ہے کیونکہ یہ کلاس سب سے اچھی پروڈیوسر اور کنزیومر ہوتی ہے۔ اپنے معاشی بازو کو وسعت دیتے ہوئے چین بذریعہ پاکستان ایک معاشی راہداری سی پیک کی شکل میں بنا رہا ہے جس کا دارومدار پاکستان پر ہے جسے بجا طور پر چین والے اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ امریکی سفیر کو چائنہ کے سفیر نے برملا کہ دیا تھا کہ پاکستان ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنا امریکہ کو اسرائیل ۔ لہذا پاکستان کے لئے موقع ہے کہ اپنے قیام کے وقت مغربی دنیا میں شامل ہونے اور 1979میںافغانستان کی جنگ کا ایندھن بننے کا مداوا کرتے ہوئے نئے عالمی آرڈر(سائنو ایشیا) میں چین کا فرنٹ لائن پارٹنر بنے اور اس کی علمی ، معاشی اور انصاف پر مبنی ترقی میں حصہ دار بنتے ہوئے اپنی بقاء کے سفر کو برتری میں تبدیل کرے وگرنہ تاریخ سبق نہ سیکھنے والوں کو سزا ضرور دیتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن