احتساب کا مضحکہ خیز نظام

Jan 22, 2017

نعیم قاسم

جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک طرف پانامہ لیکس کے کیس پر بڑے زبردست ریمارکس دئیے ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نیب کے پلی بارگین قانون کے مختلف مضمرات کے متعلق بھی شدید برہم ہیں۔ وہ اکثر ریمارکس دیتے ہیں کہ یہ احتساب کا کیسا مضحکہ خیز نظام ہے جو اربوں روپوں کی لوٹ مار کرنے والوں سے چند کروڑ روپے وصول کر کے انہیں با عزت بری کر دیتے ہیں جبکہ ڈھائی سو روپے کی بے ایمانی کرنیوالے چپراسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیتے ہیں ہمارے ملک کے طبقہ اشرافیہ نے سٹیٹس کو اس لئے قائم کیا ہوا ہے کہ انکے خاندانوں کے معاشی مفادات کو زک نہ لگے۔ کبھی ہمارے حکمرانوں طبقوں کی کرپشن سیاسی وجوہات کی بناء پر این آر او کے پردوں کے پیچھے چھپ جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ پانامہ کیس میں بھی پارک لین کے فلیٹس کی ملکیت ثابت ہونے کے باوجود اس میں رقم کی ترسیل کو ٹیکنیکل بنیادوں پر درست ثابت کر دیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پہلے سرے محل کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکارکر دیا مگر جب ان پر کیس ختم ہوا تو لندن میں انہوں نے سرے محل کو اپنی ملکیت قرار دیا اور آج پانامہ لیکس میں بھی وزیراعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقاریر اور سپریم کورٹ میں ان کے وکلاء کے دلائل پر بھی معزز عدالت نے حکمران خاندان کے قول و فعل کے تضادات کو نمایاں کیا اور اگر ہمارے ملک کے حکمران کرپشن کے ذریعے اربوں ڈالرز کی جائیدادیں پوری دنیا میں قائم کر کبھی پلی بارگین کے قانون کی وجہ سے کبھی این آر اوز کی آڑ میں تو کبھی استثناء اور ٹیکنیکل بنیادوں پر اپنے آپ کو سزائوں سے بچا بھی لیں تو پھر ایک دن وہ قدرت کے نظام انصاف کا ضرور سامنا کرینگے اور اگر بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان آخرت پر پختہ ہے تو بھی روز آخرت میں اللہ کی عدالت میں تو ہر انسان کے معاملات پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہو گا پاکستان کے باشعور شہریوں کی ایک قابل لحاظ تعداد بدقسمتی سے بڑے عرصے سے یہ رائے قائم کر چکی ہے کہ پچھلے بیس سالوں کے دوران انہیں جو منتخب حکمران ہیں ان میں سے کسی بھی حکمران کا کردار اور رویہ اور طرز حکومت مثالی نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ ایسے اعتراضات ہیں جو دونوں کی پرفارمنس پر یکساں طور پر وارد ہوتے ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ مرکزی حکومت اور آج کی مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت کی کارکردگیوں کا جائزہ لیا جائے اور اس کے ساتھ دونوں پارٹیوں کی پنجاب اور سندھ میں دس دس سال کے عرصہ حکمرانی کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو انیس بیس کے فرق کے ساتھ دونوں پارٹیوں کی قیادتیں اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں۔ خاندانی سیاسی وراثت کی بناء پر وہ تمام فیصلے اپنے خاندانی مفادات کے بیش نظر کرتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔ اداروں کی شکست و ریخت تیزی سے جاری ہے۔
پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 7 ہزار ارب روپے تھا جو آج بڑھ کر بیس ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں مہنگے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں مگر چین اور ترکی کی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک اور سیاسی طاقتور شخصیات اور بیورو کریٹس کے کک بیکس اور کمشن کی وصولیوں نے توانائی اور ذرائع نقل و حمل کے پراجیکٹس کے مصارف کو اربوں روپوں تک پہنچا دیا ہے۔ سی پیک کی افادیت اپنی جگہ مگر ہمیں ہر سال چینی بنکوں کو قرضوں پر ڈھائی ارب ڈالرز کا سودا ادا کرنا ہو گا۔ اور ان پراجیکٹس کی سکیورٹی کیلئے فوج کا جو سپیشل ڈویژن تیار ہو رہا ہے اس پر ہر سال سو ارب کے اخراجات ہونگے۔
چنانچہ سی پیک کا تبھی فائدہ ہو گا کہ ہماری جی ڈی پی گرئوتھ میں سالانہ 7 سے 8 فیصد اضافہ ہو اور ہر سال 500 ارب روپے کی کرپشن کا راستہ احتساب کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نظام قائم نہیں کیا جاتا اور پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے اور وپڈا جیسے خسارے کے اداروں کو پرائیویٹ نہ کیا جائے۔ مگر حکمرانوں کے اہل خانہ کو ترقیاتی پراجیکٹس میں اربوں کے کک بیکس مل رہے ہیں تو اس وجہ سے یہاں پر وہ کبھی بھی احتساب کا ایسا نظام قائم نہیں ہونے دینگے جو مستقبل میں ان کو قانون کے کٹہرے میں لے جائیں۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں ہمیشہ اس بات کا گلہ کرتی ہیں کہ سیاستدانوں کو کرپٹ، نا اہل اور غیر معیاری حکمران قرار دینا غیر جمہوری حکومتوں کی سازش کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد جمہوریت اور سیاستدانوں پر سے عوام کا اعتماد ختم کرنا ہے لیکن کیا کیا جائے پانامہ لیکس کے بعد تو پاکستان کے تعلیم یافتہ حلقوں میں یہ تاثر دن بدن پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ سیاستدان سیاست کرپشن کیلئے کرتے ہیں ۔
آج ہم یہ بات بڑے دکھ سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی یہ بہت بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے بعد اسے جو قیادت ملی ہے وہ بڑی حد تک وژن، بصیرت، بلند نگاہی، دور اندیشی اور پختہ کاری کی خصوصیات سے عاری ہے۔ ہم بطور قوم دنیا بھر میں کرپشن کیلئے بدنام تو ہیں ہی لیکن افسوس ہمارے ہاں احتساب کا نظام قابل اعتبار نہیں۔ ہمارے ہاں جوابدہی کا کوئی انتظام نہ ہونے کے برابر ہے ملک کی دولت لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا کبھی ممکن نہیں ہوا ہمارے حکمرانوں جیسے زیاں کار اور فریبی کون ہو نگے جو جن اخلاقی قدروں کا وعظ کرتے ہیں عملاً وہ اس کے برعکس زندگی گزارتے ہیں انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ قول و فعل کے تضاد کی کوئی تو حد اورانتہا ہونی چاہئیے اور یہ نہ بھولے کے قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے۔

مزیدخبریں