جب افواہیں دم توڑنے لگتی ہیں تو چند سازشی عناصر انہیں زندہ رکھنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان کے مفاد اور ہماری قومی سلامتی کے دشمن جن میں سے کچھ ہماری اپنی صفوں میں موجود ہیں، نت نئے منصوبوں اور ڈھکی چھپی کارروائیوں سے دم توڑتی افواہوں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ مگر پھر کچھ نادان دوست بھی ہوتے ہیں جو افواہوں کے تدارک کا وہ طریقہ اپناتے ہیں کہ بس "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کے مصداق معاملہ مزید خراب ہو جاتا ہے۔ الزامات اور افواہوں کا جب قانونی کارروائی کے ذریعے عدالتوں میں جواب دینا ممکن نہ رہے تو معاملہ غیر قانونی کارروائیوں اور ماورائے عدالت بنا دیا جاتا ہے۔ جب ریاست اور حکومت خود ہی عدالتی نظام کو ناکام قرار دے رہی ہو اور اسکے متوازی فوجی عدالتوں کی ضرورت اجاگر کر رہی ہو تو پکڑا جانے والا چور ہجوم سے اور ایک گورنر کیونکر اپنے ہی پولیس محافظ کی گولی سے زندہ بچ پائے گا ؟
جب ریاستی بیانیہ یہ ہو کہ ہمارا عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کو سزا دلوانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں تو پھر عام شہریوں کا بڑے شہروں سے دن دیہاڑے اغوائ ہو کر لاپتہ ہونا کتنا حیران کن ہے۔ یہی وہ صورتحال ہوتی ہے کہ جب دشمن افواہوں کے ذریعے ایک ایسا سازشی جال بْنتا ہے جس کے تانے بانے کسی بڑے حادثے اور سانحے کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسے افواہوں کی تردید سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس نے چند واقعات ترتیب دے رکھے ہوتے ہیں۔ جب مذہبی جنونیت معاشرے میں بے قابو ہو جائے تو پھر دشمن کو کسی بڑے منصوبے کی بجائے محض ایک افواہ کی تیلی لگانی ہوتی ہے۔ اور جب آگ جلا کر سب کچھ خاک کر دے تو راکھ اور دھوئیں سے مذہبی جنونیت کو مزید تقویت ملتی ہے۔ جب یہ جنونیت کسی ہدف پر مرکوز ہو تو ایسی میں چند دوسری قوتیں اپنے اپنے مفاد کے لئے اسے ہوا دینا شروع کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں جو پاکستان میں سول و عسکری قیادت کے درمیان آئین کے دائرہ کار کے مطابق ہم آہنگی پر نالاں رہتی ہیں۔ یہ قوتیں سیاسی اور عسکری دونوں حلقوں میں موجود ہیں اور شاید احتساب اور جوابدہی کے خوف سے مبرا ہیں۔ ان قوتوں پر شاید کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے یہ اپنی اپنی قیادت کو ماورائے آئین اقدامات کے ایسے بھنور میں پھنسا دیتی ہیں کہ جہاں سے نکلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ یہی وہ قوتیں ہیں جو امن اور سکون کے حالات میں ملکی وسائل کے استعمال پر جوابدہی اور احتساب کے امکان سے خوفزدہ نہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر ایسے عناصر کو اپنی صفوں سے نکالنا ہوگا جو دونوں کے لئے ایک خطرہ بن چکے ہیں اور ان عناصر کے افواہوں کی صورت پھیلائے ہوئے جال کے باعث سیاسی اور عسکری قیادت ان کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی بھی نہیں کر پاتی۔ افواہوں کی چادر اوڑھے یہ سازشی عناصر بغیر کسی اجازت کے بھی اپنے منصوبوں پر عمل پیرا رہتے ہیں اور تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ ان افواہوں کا تدارک کر رہے ہیں۔ جن کے باعث قیادت کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں قیادت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ اگر انھوں نے ان کارروائیوں میں مداخلت کی تو ان افواہوں کو مزید تقویت بھی مل سکتی ہے۔
یہ وہ عناصر ہیں جنھوں نے آج تک سیاسی حکومتوں اور قیادت کو نیچا دکھانے کے لئے اسکرپٹ لکھے اور آج وہی مہارت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ پہلے افواہیں اڑائی جاتی ہیں، پھر عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں، پھر قیادت سے سوال کئے جاتے ہیں اور میڈیا کے چند ساتھیوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک دوسرے سے ملاقات میں مسکراتے ہوئے بھی محتاط ہوتی ہے۔ شاید اس کا حل ایک ہی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر چار یا پانچ سال کر دی جائے تاکہ ہر قیادت کو اپنے ادارے میں اصلاحات اور بہتری کے لئے زیادہ وقت مل سکے۔ خاص کر ایسی قیادت کو جو آئین اور جمہوریت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہو۔ وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ ایسی ہے کہ یہاں کچھ ادارے اپنے سربراہان سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور وہ خود کو احتساب سے ماورا سمجھنے لگے ہیں۔ ان اداروں کے سربراہان کو ان اداروں اور ان کے اندر موجود چند آئین کے باغی عناصر کو جگہ پر لانے کیلئے زیادہ عرصہ درکار ہوگا۔
موجودہ عسکری قیادت آئین سے متعلق ایک سوچ کی حامل دیکھی جا سکتی ہے۔ بعد میں نجانے کس سوچ کی حامل کونسی قیادت سامنے آئے۔ اصلاحات اور بہتری کے لئے یہ ایک اچھا موقعہ ہے وگرنہ پھر ہماری آئندہ نسلیں شاید دھرنوں اور شہریوں کے لاپتہ ہونے سے متعلق ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی بات نہ کر پائیں گی۔