معاشرے میں صرف ایک زینب نہیں جس کا قاتل پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی ایسی بہت سی چھوٹی اور بڑی زینب تھیں اور ابھی بھی ہیں جن کے قاتل اسی دھرتی پر دندتاتے پھر رہے ہیں۔ وہ انصاف مانگتے مانگتے تھک گئیں مگر انصاف سے محروم رہیں۔ بدقسمتی سے ان معاملات کو سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا۔ اس طرح کے واقعات سیاسی مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ہر پارٹی ایسے سانحات اور واقعات کو بنیاد بناکر اپنے مفاد تلاش کرتی نظر آتی ہے ۔ کام کسی سے نہیں ہوتا۔ سب بڑی بڑی شیخیاں بگھارتے ہیں۔ گذشتہ سال ہی کو لے لیں ، بڑی تعدادمیں کم سن اور معصوم بچیاں سمیت جوان لڑ کیاں درندوں کے ہتھے چڑھیں۔ مگر ہماری حکومت نے کبھی کسی کے قاتل کو یا کسی درندے کو پکڑ کر عبرت کا نشان نہیں بنایا۔ ہمارے حکمران صرف اجلاس کرتے رہے اور کمیٹیاں بناتے رہے اور اس قسم کے واقعات کو بنیاد بناکر بچوں کو جنسی تعلیم کی آگاہی کے نام پر پاکستان کی نظریاتی اساس کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ اعلیٰ حکام صرف بلند بانگ دعوے کرتے رہے مگر عملی اقدام نہ کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ ان سے ایک قاتل نہیں پکڑا جارہا ۔۔؟ مجرم کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا۔ ۔؟ نہیں ۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجرم اسی دھرتی پر ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت قاتل کو پکڑنا ہی نہیں چاہ رہی کیونکہ معاملہ ابھی گرم ہے اور پورا ملک غم و غصہ کی حالت میں ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ قاتل کو گرفتار کرکے سر عام پھانسی دی جائے۔ جبکہ یہ کام حکومتی پالیسی کے خلاف ہے۔ اگر قاتل کو فوراً گرفتار کرنے کا دعویٰ کرلیا جائے گا تو حکومت پر شدید دباؤ ہوگا کہ مجرم کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بہر حال ہوگا یہ کہ جب کچھ روز گزرجائیں گے اور غم و غصہ کی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی تو موقع کی مناسبت سے مجرم کی گرفتا ری کا اعلان کرکے تفتیش کا ڈھونگ رچایا جائے گا اور کیس کو بریف کیس کی نذرکردیا جائے گا۔ اس کے یہ بعد یہ ہوگا کہ مجرم سکون اور اطمینا ن سے جیل میں اپنی زندگی گزارتا رہے گا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے واقعات سے لبریز ہے۔ حکومت کے اس رویے کو کیا کہا جائے۔۔۔؟ حکومت کے اس رویے اور کردارپر نااہلی کا ٹھپہ لگایا جائے۔۔؟ نہیں۔ اس پر نااہلی کا ٹھپہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نت نئی ٹیکنالوجی کی سہولیات میسر ہوتے ہوئے مجرم کو پکڑنے میں کوئی دیر نہیںلگ سکتی۔
قصور کے ایک دیہی علاقے حسین خان والا میں ہونے والے واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھے جہاں 300 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کی فحش وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر فروخت کی گئیں۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے حالات ویسے کے ویسے ہی ہیںاور اب بھی بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کی پیدائش کا مقصد ہی یہی ہے کہ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ جنسی تشدد کی چند سالہ رپورٹ دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے ۔ اگر صرف 2010 کی رپورٹ سے ہی ابتدا کریں تو اس سال مجموعی طور پہ بچوں سے جنسی زیادتی کے 2252 کیسز رپورٹ ہوئے، سال 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 2303 ہوگئی، سال 2012 میں 2788، سال 2013 میں 3002، سال 2014 میں 3508، سال 2015 میں 3768 جبکہ سال 2016 میں مجموعی طور پہ 4139 کیسز رپورٹ ہوئے۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’ساحل ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 2016ء کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی تنظیم کے دعویٰ کے مطابق 2017کے پہلے چھ ماہ میں 62 بچوں کو کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔اسی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ چند سالوں میں ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے لیکن کسی کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ کتنے مجرموں کو گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں۔بدقسمتی سے اس قسم کے واقعات اور سانحات پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن ہماری حکومت اس میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
ملک میں امن و مان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی متعددوجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہمارے نام نہاد ’’ دانشوروں ‘‘ کی عجیب منطق ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سزائے موت انسانیت کے خلاف ہے لہٰذا پاکستان میں سزائے موت کا قانون ختم کیا جائے ۔ یہی دباؤ پاکستان پر امریکی آقاؤں کی جانب سے ہوتا ہے جس پر عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اسی وجہ سے ملک میں سزائے موت سنانے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قانون میں جنسی زیادتی کی سزا سات سال قید تھی لیکن جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے2016 میں نیا قانون بنایا گیا جس کے مطابق بچوں کو جنسی طور پہ ہراساں کرنا انہیں کسی بھی قسم کی فحش نگاری کے لیے استعمال کرنا یا انہیں عریانیت دکھانا جرم ہے جس کی سزا 7 سال قید اور 70 ہزار تک کا جرمانہ قرار دی گئی۔یعنی اس انسانیت سوز جرم کی سزا صرف قید اور تھوڑا سا جرمانہ ہے ۔ حسا س نوعیت کے جرم کی اتنی کم سزا ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے مگر ا س سے پہلے اس قانون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قصور زینب سے پہلے رونماہونے والے سانحات میں مجرموں کا کردار ادا کرنے والوںکو ٹھکانے لگا کر عبرت کا نشان بنادیا جاتا تو شاید اس زینب کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔ بہر حال اگر حکومتی رویے میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر ہمیں ایسے سانحات اور واقعات دیکھنے اور سننے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائی۔