ببا بلھے شاہ کی دھرتی میں ننھی ڈولی زینب کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل کی خبر مجھے یو اے ای میں ملی۔ 7 سالہ ننھی زینب کے والدین ادائیگی عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ اور درحبیبؐ پر حاضری دے رہے تھے اور زینب قرآن پاک پڑھنے خالہ کے گھر جا رہی تھی کہ راستے میں گڑیا ایک وحشی اور درندہ صفت شخص کے ہتھے چڑھ گئی جس نے RAPE کے بعد اسکا گلا دبا کر قتل کر دیا اور پھر اس معصومہ کی نعش کو قصور میں ہی کشمیر چوک کے قریب کوڑے کے ایک ڈھیر پر پھینک کر فرار ہو گیا۔ اسی ننھی منی زینب کی بے حرمتی کی گئی، اس فعل سے زمین پھٹی… کالی آندھی آئی اور نہ ہی بھونچال محسوس کیا گیا… پولیس گمشدہ زینب کو ڈھونڈتی رہی۔ سپاہی حوالدار سے لیکر متعلقہ تھانے کے تمام چھوٹے اور بڑے تھانیدار اپنے روزنامچوں میں اپنی نوکریاں پکی کرنے کیلئے اندراج بھی کرتے رہے۔ ’’سٹیشن ہائوس افسروں‘‘ کو مانیٹرنگ اور کنٹرول کرنے والے ’’بڑے بڑے صاب‘‘ اس واقعہ پر متعلقہ اہلکاروں کو ہدایات بھی دیتے رہے مگر افسوس صد افسوس! کہ بڑے صابوں کے احکامات کے باوجود پُلس کے متعلقہ تھانیدار اس ننھی بچی کو تلاش کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ تھانیداروں اور انکے عملہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ کیا تھی؟ 4 روز تک بچی لاپتہ رہی تو اسے تلاش کرنے کیلئے جو سٹریٹجی اپنائی گئی کیا وہ اتنی کمزور تھی کہ اس وحشی ملزم کا سراغ لگانا تک ممکن نہ ہو سکا…! اس درندہ صفت شخص کو زمین نکل گئی یا آسمان نے اٹھا لیا… یہ ہے سب سے بڑا وہ سوال جو دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں سمیت غیرملکیوں کیلئے بھی ایک معمہ بن چکا ہے!!!
خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گو قوم کو بہت جلد ملزم پکڑے جانے کی نوید سنائی ہے تاہم ان والدین کو دلاسہ آخر کون دے گا جن کی ننھی بیٹی کو کوئی درندہ نما انسان کئی روز تک بھنبھوڑتا رہا…! خادم اعلیٰ کی ان کوششوں کی کامیابی کیلئے میں ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی بھی دعاگو ہیں۔ دعا تو ہم ٹوبہ ٹیک سنگھ، کامونکے، مردان،، منڈی بہاء الدین اور سیالکوٹ میں 8 سالہ بچی سمیت ہوس کا نشانہ بنائے گئے 3 کم عمر بچوں کیلئے بھی کر رہے ہیں… مگر قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان روزافزوں بڑھتے واقعات کے باوجود ابھی تک قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟ ایسے مجرموں کی سزا صرف اور صرف موت ہے…!
متحدہ عرب امارات کے ایک انگریزی اخبار کا غیرملکی رپورٹر مجھ سے یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے سے آئے روز ہونے والی زیادتی اور ناانصافی پر لوگ حکومت اور پولیس سے فوری انصاف کی توقع رکھنے کی بجائے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل کیوں کرتے ہیں، قوم کا یہ اقدام پولیس اور حکومت سے اعتماد اٹھ جانا تو ظاہر نہیں کرتا…؟؟؟
سول اسکا جاندار تھا۔ میں اسے کسی گول مول جواب میں ہرگز الجھانا نہیں چاہتا تھا چنانچہ میں نے جواب دیتے ہوئے اسے بتایا کہ یہ مرض ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے، محنت کش طبقہ وہاں بھی اپنے قومی اور لوکل اداروں سے نالاں ہے، انہیں اپنی ضلعی حکومتوں کی کارکردگی پر اکثر اعتراض رہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان ممالک کے جمہوری ڈھانچے مضبوط ہیں جہاں اداروں کی سخت مانیٹرنگ کا واضح نظام رائج ہے جسے بائی پاس کرنا ممکن نہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے عوام کا اعتماد اپنے اداروں پر غیرمتزلزل ہے۔ ادارے پاکستان میں بھی موجود ہیں مگر افسوس ن پر حکومت کا وہ چیک اینڈ بیلنس نہیں جس سے بیوروکریسی کو کنٹرول کیا جا سکے۔
ٹورازم کے ساتھ ساتھ دبئی ’’پاکستانی سیاست‘‘ کا بھی اچھا خاصا گڑھ بن چکا ہے۔ خوشحالی کے حصول کیلئے یہاں آئے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو HAND TO MOUTH ہونے کے باوجود سیاست کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے انکی ہمدردی دیکھتے ہوئے انکی حالت پر رحم آنے لگتا ہے۔ ’’روزی روٹی‘‘ پوری ہو نہیں رہی اور انکی سیاست کا یہ عالم کہ مستقبل میں وہ ایک بااختیار پاکستانی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بیشتر محنت کشوں نے یہاں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ج، آل پاکستان مسلم لیگ اور کئی دیگر سیاسی پارٹیوں سے اپنی سیاسی وابستگیاں قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل پرویز مشرف بغرض علاج چونکہ دبئی میں مقیم ہیں سوچا ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کیوں نہ انکی صحت کے بارے میں دریافت کیا جائے! ڈاکٹر امجد سے معلوم ہوا کہ جنرل صاحب پرنٹ میڈیا کو کسی بھی قسم کا انٹرویو دینے سے معذرت خواہ ہیں، ان سے ملاقات کے لئے ان سے پیشگی اجازت کو بھی لازم قرار دیا جا چکا ہے کہ مقامی سکیورٹی سے کلیئرنس کا بھی معاملہ ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ لندن میں جنرل صاحب کو انکی رہائش گاہ پر چند برس قبل مل چکا ہوں، سیاست ویاست مجھے نہیں کرنی انکی صحت کے بارے میں جاننا ہے کہ مریض کی تیمارداری کرنا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے، جنرل پرویز مشرف سے اجازت مل جائے تو سو بسم اللہ ورنہ اللہ اللہ خیر صلیّٰ۔ یہ شاید میرا جذبۂ تیمارداری تھا کہ جنرل صاحب نے OK کر دیا۔ سفید شلوار قمیض اور ’’بلیزر‘‘ پہنے مشرف صاحب نے بھرپور استقبال کیا، چائے کے بعد انکی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ کہنے لگے الحمداللہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں، آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ قدرے توقف کے بعد انہوں نے لندن کے سرد موسم کا حال اور میں نے انکی صحت کا حال پوچھا۔ لندن کے حوالہ سے ہی سیاسی سردی پر بھی ہلکی پھلکی بات چیت ہوئی۔ خوشگوار موڈ میں وہ مجھے دیکھتے رہے اور میں انکی صحت کا موازنہ کرتا رہا۔ پاکستان جلد واپسی کی دعا کے ساتھ ہی میں نے ان اجازت لی۔
دبئی میں قائم بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستان آڈیٹوریم وزٹ کی خصوصی دعوت پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فیصل کریم نے دے رکھی تھی ڈاکٹر فیصل کے والد میاں اکرام کا حکم بھی تھا، وقت مقررہ پر PAD کے دفتر پہنچا۔ ڈاکٹر فیصل جو اس وقت اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اطلاع ملتے ہی آ گئے۔ آڈیٹوریم کی خوبصورت عمارت جو فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے مجھے مختلف شعبے دکھائے گئے۔ 750 نشستوں کے اس آڈیٹوریم میں میڈیکل، سوشل، سپورٹس اور کمیونٹی WINGS شامل ہیں۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ آڈیٹوریم اوورسیز پاکستانیوں کا دنیا میں سب سے بڑا سینٹر ہے جس میں فٹ بال، بیڈمنٹن اور باسکٹ بال کورٹس نمایاں ہیں۔ مریم ممتاز نے جو اس سنٹر کی کمیونی کیشن انچارج ہیں آڈیٹوریم کے دیگر شعبوں پر بریفنگ دی۔ دبئی میں پاکستانیوں کی بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی اور تاریخی کامیابی ہے۔