سعادت حسن منٹو کی باسٹھویں برسی پر

مکرمی! چار پانچ دن سے چچا سعادت حسن منٹو کی بہت یاد آ رہی تھی۔ سوچا ان کے بارے میں کچھ لکھوں۔ مجھے فخر ہے میں چودھری برکت علی کا بیٹا ہوں۔ میں تقریباً پندرہ سال کا تھا تو محترم والد چودھری برکت علی فوت ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا واقعہ ہے، میں سکول سے چھٹی کر کے دکان پر آیا، والد صاحب سے دعا سلام ہوئی تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ ایک خوبصورت شخص تانگہ پر آیا۔ دکان کے اندر آ کر کھڑا ہو گیا محترم والد صاحب کھڑے ہو کر ملے ، بیٹا خالد یہ سعادت حسن منٹو ہیں بہت بڑے افسانہ نگار ہیں مجھے دلی خوشی ہوئی کہ ایک بڑے افسانہ نگار سے ملاقات ہو گئی۔ جناب سعادت حسن منٹو نے آگے ہو کر مجھے پیار کیا اور بہت خوش ہوئے۔

جب چچا مرزا ادیب ایڈیٹر ماہ نامہ ’’ ادب لطیف‘‘ کے دفتر نہ ہوتے تومحترم سعادت حسن منٹو مجھ سے پیاری پیاری باتیں کرتے، لطیفے سناتے اور پیارے سے بولتے تم میرے بیٹے ہو۔ محترم والد چودھری برکت علی فوت ہو گئے۔ مگر منٹو صاحب کی محبت وہی رہی بڑے خلوص سے ملتے میں سکول سے لیٹ ہو جاتا تو انتظار کرتے محترم مرزا ادیب سے کہتے چھوٹا چودھری نہیں آیا۔ جب میں آ جاتا تو بہت خوش ہوتے۔
کہتے چودھری کیا کھانا ہے میں کہتا آپ کی پیاری باتیں سننی ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، اے حمید، محترمہ زبیدہ سلطانہ تقریباً ہر روز ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر میں تشریف لاتے تھے۔ میری دلی دعا ہے کہ ان سب ادیبوں کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے:( آمین)
جھے سعادت حسن منٹو کی باتیں آج بھی یاد ہیں۔ محترم والد صاحب کے فوت ہونے کے بعد ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا’’ بیٹا خالد جب لاہور کے ناشرین میری کتاب چھاپنے سے ڈرتے تھے تو اس وقت چودھری برکت علی نے جرأت سے کام لے کر میری کتاب ’’ بادشاہت کا خاتمہ‘‘ شائع کی تو اس وقت مجھے خوشی ہوئی اور بولتے آپ کے والد صاحب کی بہت یاد آتی ہے۔ (محمد خالد چودھری )

ای پیپر دی نیشن