خوشبوؤں کی داستانیں، رنگوں کی بارات اور رحمت کی برسات سب کو اچھی لگتی ہے، آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے رکھنا، ہر ایک کا حق ہے، سپنے دیکھنا کوئی جرم نہیں تاہم جرم اور ظلم کی داستان اس وقت رقم ہونا شروع ہو جاتی ہے، جب معاشرے میں لوگ خواب تو بنتے رہتے ہیں اور خواہشات بھی پالتے ہیں مگر فرض نبھانا اور حق پہچاننا بھول جاتے ہیں۔ جھوٹ، فریب اور جعل سازی کو نہ سمجھنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا ان سب کو فروغ دینا۔ آلودگی فریب کی ہو یا جعلسازی کی، معاشی یا معاشرتی اگر کوئی عوام یا قوم پہلے اس کی تشخیص اور بعدازاں علاج نہیں کرتی تو بالآخر وہ قوم ازخود آلودہ ہوجاتی ہے۔ پھر ایسی آلودگی میں اگر لوگ سکھ کے سانس کی امید رکھیں تو اسے حماقت تو کہا جاسکتا ہے ذہانت نہیں۔
پرسوں (20 جنوری) اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سیاسی منظر لیڈران کے جوش خطابت سے گونجتا رہا۔ بھکر میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی موٹروے، فراہمی گیس اور تعلیم پر سیاست کر کے عوام سے داد وصول کررہے تھے۔ ہری پور ہزارہ میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی خطابت کے جوہر سے عوامی میلہ لوٹ رہے تھے، انہوں نے واضح کہا کہ ،مجھے نکالنے کا "فیصلہ بدلنا ہوگا"۔ حب بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی خوش بیانی سے تاثر دے رہے تھے کہ، بلوچستان کو حقوق نہیں ملے جو ہم دیں گے کیونکہ بلوچستان سے میرا زیادہ تہذیبی اور سماجی رشتہ ہے اور ساتھ یہ فرمان بھی جاری کیا کہ سی پیک کے آغاز کا کریڈٹ سابق صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے۔ یہی نہیں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا بھی لاہور میں خطاب تھا جس میں اس بات پر زور تھا کہ اس سال کو ججز اور وکلاء ہرصورت میں فرض شناسی اور فراہمی انصاف کے لئے مختص کردیں۔ شہر لاہور میں ن لیگ سے نالاں کچھ ن لیگی اور کچھ پیروں فقیروں کی بھی ایک جاندار و شاندار بزم سجی ہوئی تھی وہ عشق رسول میں آنے کے دعویدار ہیں، اور ختم نبوت کی پاداش میں ہونے والی غلطی کے سبب رانا ثناء اللہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔ گویا سب فضاؤں اور ہواؤں میں پاکستان اور پاکستانیوں سے "خیر خواہی" کے دعوے تھے یا مطالبے یا پھر وعدے۔ اس ایک دن کے خلوص، جوش اور جذبے کا پچاس فیصد ہی گر سامنے رکھ کر دیکھا جائے، تو یوں لگے کہ جیسے کسی زینب کے ساتھ زیادتی، کسی راؤ انوار کی سیریل کلنگ، کسی یونیورسٹی میں تحقیقی فراڈ ، کسی ہسپتال کے فرش پر کسی غریب زادے کی پیدائش ، کسی عدالت میں ناانصافی، کسی تھانے میں پولیس گردی، کسی شہر میں دہشت گردی اور کسی چوراہے میں غنڈہ گردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ اب کسی رہبر کی صف میں راہزن کی گنجائش رہی گی۔ ملک کے کونے کونے اور قریہ قریہ سے "مخلصین" کی اٹھنے والی آوازوں میں خیر متشکل کرنے کے وہ منصوبے تھے کہ بس رہے نام اللہ کا۔ ہاں! ایک کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ یہ کہ اس دن کی آوازوں میں عمران خان کی بازگشت نہ تھی لیکن سرشام وہ کمی بھی پوری ہو گئی اور سرکار نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طمطراقی ٹویٹ داغ دیا، کہ کہیں ان کے طنطنے میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے۔ فرمان عمران تھا کہ، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ منی لانڈرنگ کرنے والے کی تصویر ہیلتھ کارڈ پر ہو ۔ایک زخموں کی انجمن عوامی سطح پریہ بھی ہے کہ، کوئی سابق وزیراعظم اور موجودہ ہردلعزیز لیڈر اٹھتا ہے تو پارلیمنٹ میں کچھ، قوم سے ٹیلیویژن خطاب میں کچھ اور عدالت میں کچھ کہتا ہے، یعنی ایک سوال کے تین مختلف جگہوں پر تین مختلف جواب۔ اب قوم کس منی ٹریل کو کس منہ سے دیکھے؟ اس کا جواب بھی تو کوئی دے نا۔ اس قوم کے راج دلارے لیڈران اگر مال روڈ کے اکٹھ کو اپوزیشن کا ایک فلاپ شو قرار دیتے ہیں اور ہری پور کے ایک کامیاب شو کو ایک قطعی کامیابی سمجھتے ہیں تو پھر مسئلہ ہی کوئی باقی نہ رہا کہ کون کتنا کامران ہے۔
دھرنے والوں کو یہ زعم ہے کہ کوئی ان جیسا ریکارڈ بناکر اور اجتماع کرکے تو دکھائے۔
چلیں چھوڑیئے اس بات کو۔ بڑے ہی مودبانہ انداز میں چند سوالات ہیں ان کے سیدھے سادے جوابات مل جائیں تو عنایت ہوگی:
1۔ کیا آئین کے مطابق حاکمیت اعلی رب کعبہ کی نہیں؟2۔ کیا ریاست مدینہ کے بعد پاکستان کی بنیاد ایک خاص نظریہ پر نہیں رکھی گئی؟3۔ کیا آئین پاکستان میں، پوری دنیا سے ہٹ کر صرف مملکت کی بجائے انسانیت کے امن اور سلامتی کی بات نہیں کی گئی؟4۔ کیا پاکستان سقوط ڈھاکہ کے دلخراش تجربے سے نہیں گزرا؟
5۔ کیا پاکستان عالمی سازشوں کی تجربہ گاہ نہیں رہا اور نہیں ہے؟6۔ کیا پاکستان کے کئی لیڈران بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے تابع فرمان نہیں؟ (ہری پوری طرز تکلم دیکھئے )7۔ بلاشبہ شیخ مجیب الرحمٰن چاہتا ہی الگ بنگلادیش تھا، لیکن، کیا جملہ آمروں کو جمہوریت کے علمبردار مان لیا جائے؟8۔ پیارے رہبران سیاست اور عزت مآب زاہدان حکومت! کیا زندہ اقوام میں لوگ تحقیقی دانش گاہوں، نیوٹریشن، بائیوٹیکنالوجی، نالج بیسڈ اکانومی، اٹامک انرجی کے مفید استعمال، ڈرون ٹیکنالوجی، ماحولیاتی آلودگی اور سمارٹ سائنسز پر غوروفکر اور مقابلے کی ٹھانے بیٹھے ہیں، اور ہم اپنا مقابلہ اور موازنہ ایتھوپیا یا افریقی ممالک، یا پھر اپنے آپ ہی سے نہیں کئے بیٹھے؟9۔ کیا ہمارے قائدین اپنی تساہل پسندی اور عاقبت نااندیشی کے سبب ازخود سب کچھ طشتری میں رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیش نہیں کر دیتے؟10۔ کیا 70 سال میں بیوروکریسی سول سرونٹ بنی یا پولیس عوامی خدمت کار، عدالتیں عادل اور سیاستکار 62 اور 63 دفعات کے مطابق صادق اور امین بن گئے؟ اور آمریت نے بار بار "جمہوریت" ہی کی کوکھ سے جنم نہیں لیا؟
جس طرح تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ٹھیک اسی طرح ریاستی ترقی کے لئے بھی دونوں ہاتھ درکار ہیں۔ اکیلے لیڈران کے ہاتھ سے نہیں ، عوامی ہاتھ بھی ضروری ہے۔ جب عوام اپنے حقوق کو سمجھنے ہی سے قاصر ہوں تو ہر فرد کے ملت کے مقدر کا ستارہ ہونے کا فلسفہ ہی کیا؟ اگر فرد کو حقوق درکار ہیں تو سکرین پر نظر آنے والی اور اوراق پر چھپنے والی بات کے جھوٹے یا سچے ہونے کا ادراک رکھیں۔ جو سچ کی ٹیکنالوجی اور سائیکالوجی کو نہیں سمجھ سکتا وہ حقوق رکھنے یا پانے کا اہل بھی کیسے ہوسکتا ہے؟
رزق صرف مال و زر ہی نہیں سچا دوست، سچا مشیر ، سچا وزیر، تعلیم و تربیت، اچھی صحت، اچھا ماحول، مخلص عزیز و اقارب، متوازن معاشرہ، اعلی آئین اور 62 و 63 پر پورا اترنے والے ممبران اسمبلی بھی ہر فرد کا رزق ہیں۔ پس۔۔۔۔ "حصول رزق حلال عبادت ہے۔" ہاں! رزق حلال اور رزق حرام کے فرق کا فہم بھی رزق ہے۔
جب تک نظام میں نظم، عدالت میں عدل، جمہوریت میں جمہور کی حکمرانی، سیاسیات میں انسانیات، ترقیات میں مساوی حقوق، عوامی بینائی میں زاویہ نظر اور قیادت میں وسعت نظر نہیں تو معاشرے میں انصاف نامی چیز کا وجود برقرار رہنا ممکن نہیں! ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے خود احتسابی کی تہذیب نہیں اور ہم جھوٹ بولنے کے بعد اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے پھر جھوٹ بولتے اور سچ کو دباتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ، غلاموں کی طرح سامنے نظر آنے والی طاقت کی پرستش شروع کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قوی اور علیم و کبیر ذات اللہ کی ہے۔
مصنوعی ترقی یا جعلی اقدامات جن کی بنیادوں میں قرض کی اینٹ ہو وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتے تر قی اسے کہتے ہیں جو زمانے اور عہد حاضر کے مطابق ہو ، جس کا موازنہ دیگر موجودہ ترقیوں سے کیا جاسکے، ماضی بعید یا پتھر کے دور سے نہیں۔ اس سے قبل بھی میں یہ اظہار کر چکا تاہم ایک حقیقت پھر حاضر ہے۔ آج کے دور میں ترقی کا معیار انسانی رگ وپے میں صحت کی صورت میں اور ہر دماغ تک تعلیم کی رسائی کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ غذا اور غذائیت کے معیار کو ماپا جاتا ہے، دوا ملنے اور پانی کے صاف حصول جیسی حقیقتوں کو زندہ اقوام کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ کسی مخصوص چوک میں شو کیس میں سجائی ہوئی "ترقی" کو نہیں ملک کے ہر کونے، ہر گھر اور ہر ذہن میں بسائی ہوئی ترقی کو ترقی کہتے ہیں۔ پاکستان کا 50 فیصد مال و زر 20 فیصد لوگوں کے پاس اور ہاتھ میں ہے۔ اور باقی 50 فیصد باقی 80 فیصد لوگوں کے لئے ہے۔ کہنے کو 13 ہزار ماہانہ فی کس آمدنی ہے۔ اور کہتے یہ ہیں کہ بننے ہم جا رہے ہیں ایشین ٹائیگر! ذرا غور کیجئے:
نہ، نہ! مطلب یہ نہیں کہ مایوس ہو جائیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ کو ہنگ یا "بھنگ" نہ ہونے دیا جائے۔ ترقی لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کوچہ وبازار کا نام نہ ہو ہر باسی کو انسانی حقوق درکار ہیں۔ چائنہ اور پاکستان کے تعلقات کو خارجہ امور کے ماہرین مضبوط کریں کیونکہ امریکہ اب پاکستان کا نقصان کرنے کے درپے ہے۔ لوگوں کو صحت کارڈ دیں جو صحت کے لئے ہو کمپنی کی مشہوری کے لئے نہیں۔ عوام اگر اپنے ہیں تو اس کو رعایا سمجھ کر ان کے آگے کسی سکرین پر کوئی بھی جھوٹ کی اداکاری نہ پیش کرے اور نہ جعلی حروف کندہ کرکے جھوٹ کی تعمیر سازی کی جائے۔ کسی بھی قبیلے کا سیاستدان جھوٹ کی ٹیکنالوجی اور سائکالوجی کے استعمال کا جرم اور ظلم نہ کرے۔۔۔۔ اور عوام بھی اگر اب فریب کاریوں اور جعلسازیوں کو نہیں سمجھیں گے اور کبوتر کی طرح دانستہ آنکھیں بند کرکے نعروں کی دلکشی پر مرنا چاہتے ہیں، تو مرضی ان کی۔ کوئی اور پھر کیا کرے؟؟