کراچی(تنویر بیگ/ کرائم رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے میں ایس ایس پی رائو انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ آئی جی پولیس سندھ نے نقیب اللہ کے خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے آئی جی پولیس خیبر پی کے سے رابطہ کرلیا۔ نقیب اللہ کاکزن نور رحمان خاندان کے افراد کے ہمراہ کراچی کیلئے روانہ ہوگیا۔ پولیس کی اعلیٰ اختیاراتی ٹیم کی تحقیقات کی روشنی میں ایس ایس پی رائو انوار سمیت پوری پولیس پارٹی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کی تیاری مکمل کرلی گئی۔ رائو انوار نے تین رکنی کمیٹی کے سامنے زبانی بیان تو ریکارڈکرایا لیکن ابھی تک تحریری بیان داخل نہیں کیا جبکہ مبینہ پولیس مقابلے میں حصہ لینے والے پولیس اہلکار بھی بیان قلمبند کرانے کے لئے نہیں آئے اور نہ صرف غائب ہیں بلکہ ان کے ٹیلی فون بھی بند ہیں۔ اعلیٰ ترین پولیس ذرائع کے مطابق اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں ایس ایس پی رائو انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جن کے خلاف نقیب اللہ کے خاندان کے کراچی پہنچنے پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ نقیب اور دیگر ساتھیوں سے ملنے والے اسلحہ ماہر کا کہنا ہے اسلحہ دیکھ کر لگتا ہے یہ استعمال ہی نہیں ہوا۔ دوسری جانب نقیب محسود کو ہلاک کرنے والی پوری پولیس پارٹی کو معطل کردیا گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق جس نقیب پر مقدمات تھے وہ کوئی اور تھا۔ترجمان کراچی پولیس کے مطابق قائم مقام کراچی پولیس چیف آفتاب پٹھان نے شاہ لطیف ٹاون میں مشکوک مقابلہ کرنے والی پوری پولیس پارٹی کو معطل کردیا ہے، معطل ہونے والوں میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت بھی شامل ہیں جنہیں جمعہ کو عہدے سے ہٹایا گیا تھا ۔معطل ہونے والے دیگر اہلکاروں میں اے ایس آئی فدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل صداقت شاہ، ہیڈ کانسٹیبل محسن، کانسٹیبل راجہ شمیم مختار اور کانسٹیبل رانا ریاض شامل ہیں۔ انکوائری کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا ابھی تک نقیب کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ نقیب محسود کے کزن سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ثنا عباسی نے فون پر رابطہ کیا اور جلد انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق رائو انوار کے دست راست 16 پولیس افسروں کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ہٹائے گئے افسران میں 3ایس پی‘ 2ڈی ایس پی اور 10 ایس ایچ اوز شامل ہیں۔ رائو انوار کو آج دن ایک بجے ایس پی انویسٹی گیشن نے طلب کرلیا، طلبی کا نوٹس سابق ایس ایس پی رائو انوار کو بھیج دیا گیا، نوٹس کے متن میں کہا گیا ہے رائو انوار تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہ ہوئے تو خود ذمہ دار ہوں گے۔ رائو انوار نے نقیب اللہ کیس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق رائو انوار نے کہا ثناء اللہ عباسی اور سلطان خواجہ پر اعتماد نہیں۔ مقابلہ ایس ایچ او نے کیا۔ انکوائری میرے خلاف ہورہی ہے۔ ہر مقابلے کے بعد سامنے آکر ذمہ داری قبول کی تاکہ پولیس کا مورال بڑھے۔ نقیب اللہ کیس کی تحقیقاتی کمیٹی کے رکن سلطان خواجہ نے کہا ہے کہ رائو انوار پہلے روز کمیٹی کے سامنے 15 منٹ کیلئے پیش ہوئے۔ ہم مسلسل رائو انوار سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوا، رائو انوار نہ فون اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی کمیٹی میں پیش ہورہے ہیں۔ مجبوراً رائو انوار کو تحریری نوٹس بھیجا گیا۔ رائو انوار نے کہا قاری احسان سے پوچھ گچھ کی جائے، وہ اس کی تائید کرے گا۔ نقیب اللہ سنٹرل جیل میں قید ملزم قاری احسان کا ساتھی تھا، قاری احسان نے سرے سے انکار کیا کہ نقیب اللہ اس کا ساتھی ہے، اس نے کہا کہ کرائم پارٹنر نقیب اللہ کوئی اور تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے کہا ہے رائو انوار، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹائون، پولیس پارٹی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوگا۔کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں نقیب اللہ کی ہلاکت پر محسود برادری کا جرگہ ہوا، رہنما محسود برادری قیوم محسود کے مطابق جرگے میں کراچی، پشاور، ڈی آئی خان اور اسلام آباد سے محسود عمائدین نے شرکت کی، جرگے نے فیصلہ کیا مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرائی جائیں گی۔