ملک پر چھائے تشدد کے اندھیرے دور کرنے کیلئے تحریک چلانا ہوگی: والد مشال

لندن(بی بی سی) گذشتہ برس مردان میں ہلاک کیے گئے طالبعلم مشال خان کے والد اقبال خان کا کہنا ہے کہ 'ملک پر چھائے تشدد کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے چاہیے کہ عدم تشدد کی تحریک چلائی جائے۔' مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں گذشتہ برس ایک بے قابو ہجوم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں وحشیانہ طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے والد اقبال خان ہفتہ کی شام یونیورسٹی آف لندن میں بلومزبری پاکستان کے زیر اہتمام عبدالغفار خان کی تیسویں برسی پر منعقدہ باچا خان لیکچر میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں باچا خان کے لقب سے مشہور خان عبدالغفار خان کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ باچا خان کے خدائی خدمتگاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ جو تھا وہ عدم تشدد تھا۔ پختون قوم کو تعلیم سے روشناس کرانے میں باچا خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وہ فلسفہ عدم تشدد کے داعی تھے۔اپنے بیٹے مشال خان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ صوفی سوچ کا پرچار کرنے والے، علم دوست اور کتاب دوست تھے۔ مشال خان خود کو بشر دوست یا انسان دوست کہتے تھے۔ مشال خان نے مرنے سے کچھ وقت پہلے پشتو زبان میں فیس بک پر پوسٹ کی تھی کہ 'اگر میرے قتل میں تمھارے بچوں کا رزق رکھا ہے تو بچوں کا پیٹ بھرو، مگر یہ سن لو کہ کافر نہیں ہوں۔ موت سے پہلے مشال کے الفاظ تھے کہ 'تم میرے وجود کو مار سکتے ہو لیکن میری فکر، نظریے اور شعور کو نہیں مار سکتے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...