کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات نہ ہونے سے فوجی عدالتوں کی توسیع کے امکانات بڑھ گئے

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) مروجہ کریمنل جسٹس سسٹم میں عدم اصلاحات کے باعث فوجی عدالتوں میں توسیع کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ قانونی حلقوں کے مطابق فوجی عدالتوں کا عملی کام، ملزموں کو دیا گیا اپیل کا حق اور فیصلوں کے نتائج ملزمان کے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں۔ اس لئے ان عدالتوں کی توسیع میں قانونی اعتراضات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جبکہ مروجہ کریمنل جسٹس سسٹم کو اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کا نعم البدل نہیں کہا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق بیشتر سیاسی جماعتوں کے قانونی مشیروں نے بھی فوجی عدالتوں میں توسیع کے حق میں رائے دی ہے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے بننے والی فوجی عدالتوں میں پہلے بھی توسیع کی گئی تھی۔ جبکہ سپریم کورٹ بھی اکثریتی رائے کی بنیاد پر ان عدالتوں کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ فوجی عدالتیں بظاہر متوازی عدالتی نظام ضرور دکھائی دیتا ہے مگر اس کو پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم کے ذریعے قائم کیا۔ مروجہ کریمنل جسٹس سسٹم کی بنیاد تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری پر ہے۔ دونوں قوانین دو صدیاں پہلے بنائے گئے۔ ان میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ترامیم درکار ہیں جو قانون ساز ادارے کی طرف سے نہیں کی گئیں۔ اب بھی مروجہ قوانین کے تحت فوجداری ٹرائل مکمل ہونے پر ضابطہ فوجداری کے سیکشن 540کے تحت دی گئی ایک درخواست سے دوبارہ ٹرائل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اور سالوں تک بھی فوجداری مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ پراسیکیوشن کے تمام سٹیک ہولڈرز کو تحفظ دینے کا کوئی مربوط نظام نہیں اور کوئی عملی اقدامات بھی نہیں کئے گئے۔
فوجی عدالتیں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...