وزیراعظم عمران خان سانحہ ساہیوال کو لے کر خاصے رنجیدہ اور سنجیدہ نظر آرہے ہیں اس لیے انہوں نے قطر کے دور روزہ سرکاری دورے سے واپسی پر ساہیوال واقعہ پر اہم اقدامات کرنے کا اعلان کردیاہے، عمران خان شاید یہ سمجھ گئے ہیں کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جب پولیس گردی سے پاکستان کے عوام کو نجات دلائی جائے۔ اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے تمام ڈھانچے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، دورے سے واپس آتے ہی پولیس میں فوری اصلاحات کی ہدایت کروں گا۔حقیقت میں کسی بھی ریاست کی انٹرنل سکیورٹی پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس سے ریاست کے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہ پولیس کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کو کس حد تک پرُامن رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، وطن کو جنت بنانا یا جہنم میں بدل دینا پولیس کا ہی کام ہے … دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جو پولیس فورس کے رویوں کی وجہ سے امن کا گہوارہ بنے ہوئے ہیں… ان میں آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریا ایسے ممالک ہیں جہاں کئی کئی سال ایک گولی بھی نہیں چلتی… یعنی نیوزی لینڈ میں 2017ء میں ایک عرصے بعد پولیس کی جانب سے کسی کریمنل پر فائر کیا گیا، جس سے وہ صرف زخمی ہوا… اس پر پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ شخص کے گھر والوں سے معذرت بھی کی گئی کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا… اس کے برعکس یہاں تو جعلی پولیس مقابلوں میں سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، ان مقابلوں پر معذرت تو دور کی بات اُلٹا اعزازات اور ترقیاں وصول کی جاتی ہیں…اور یقین جانیے کہ میں نے اس حوالے سے بہت تحقیق کی اور مجھے گزشتہ 5سالوں میں بہت کم ایسے واقعات ملے جس میں پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے ہوں ان ون سائیڈڈ مقابلوں میں ہمیشہ ’’اشتہاری‘‘ ہی مارے جاتے رہے… ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں 360پولیس مقابلوں میں محض8پولیس اہلکار شہید ہوئے اور 1078جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ ہوا… خیر ان مقابلوں کا ذکر میں پھر کسی اور کالم میں کروں گا اس سے پہلے ملک میں پولیس سکیورٹی کا تقابلی جائزہ لینا ضروری ہے… شاید یہ کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ پاکستان پولیس فورس رکھنے والا دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے جہاں پولیس فورس کی تعداد 3لاکھ 60ہزار کے قریب ہے… سب سے زیادہ پولیس اہلکار چین رکھتا ہے جن کی تعداد 16لاکھ، اسی طرح انڈیا 15لاکھ 85ہزار، امریکا 8لاکھ، روس بھی 8لاکھ، انڈونیشیا 5لاکھ 80ہزار اور میکسیکو ساڑھے 5لاکھ پولیس فورس ہے… لیکن ان تمام ممالک میں سب سے کرپٹ ہماری پولیس ہے اگر آپ رینکنگ کے حوالے سے دیکھیں تو ہماری پولیس معیار اور قابلیت کے حوالے سے نچلے درجوں میں آتی ہے… اسے بہتری کی طرف لے جانے کے حوالے سے ہر صوبے کے افسران اپنے تئیں تقریریں ، مباحثے اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں … لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے …پنجاب ہو، سندھ ہو، بلوچستان یا خیبر پختونخوا…عوام کو کہیں انصاف ملتا دکھائی نہیں دیتا…ہمارے تھانوں کا ’’فرنٹ ڈیسک‘‘ جتنا مرضی سجا لیں … لیکن عوام کااسی فرسودہ نظام اور اسی تفتیشی افسر سے پالا پڑتا ہے، جو کرپشن کا لبادہ اوڑھے عوام کو نچوڑ رہا ہوتا ہے… اگر آپ پنجاب پولیس کے معیار پر نظر دوڑائیں تو اس سسٹم میں کہیں پولیس کا قصور نکلتا ہے اور زیادہ تر نظام کی خرابی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے… اس وقت پنجاب میں 12کروڑ کی آبادی پر پولیس اہلکاروں کی تعداد1لاکھ 83ہزار کے قریب ہے یعنی 12سو افراد کی حفاظت کے لیے ریاست ایک پولیس اہلکار دے رہی ہے ان پولیس اہلکاروں میں سے بھی 1لاکھ 32ہزار کانسٹیبل اور 18ہزار ہیڈ کانسٹیبل ہیں… حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کانسٹیبلز میں سے ہزاروںکی تعداد میں پولیس اہلکار وی آئی پیز کی ڈیوٹیز پر معمور ہیں اور کئی جگہ تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس افسران کے گھروں میں یہ اہلکار ان کی ذاتی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں… اگر تناسب کی بات کی جائے تو لاہور میں 413 افراد کی حفاظت کے لیے ایک پولیس اہلکار، کراچی میں 470افراد کے لیے ایک پولیس اہلکار جبکہ ممبئی میں تناسب 200افراد پر ایک پولیس اہلکار، دہلی میں یہ تناسب 210افراد اور لندن میں 157افراد کی حفاظت کے لیے ایک پولیس اہلکار تعینات ہے… اور اگر بجٹ کی بات کی جائے تو پنجاب پولیس کا بجٹ 100ارب روپے، انڈین پنجاب پولیس کا بجٹ بھی کم و بیش اتنا ہی، ترکی پولیس کا بجٹ 8ارب ڈالر اور لندن شہر کی پولیس کا بجٹ ساڑھے 6 ارب ڈالر کے قریب ہے…کرائم ریٹ کے بڑھنے کی پہلی بڑی وجہ تو یہ ہوئی کہ یہاں جتنی نفری تعینات ہے اس سے ڈبل نفری کر دی جائے اور انہیں صرف عوام کی خدمت کے لیے مختص کیا جائے نہ کہ پولیس افسران یا وی آئی پیز کی اپنی سکیورٹی کے لیے… اور دوسری وجہ کم بجٹ ہے… اسی لیے کرائم ریٹ اس قدر زیادہ ہے کہ عام آدمی کا پولیس پر اعتبار کا تناسب محض 10فیصد رہ گیا ہے… ایسا کیوں ہے؟ اس میں بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے یا محض خام خیالی پر ہی اکتفاء کیا جا سکتا ہے؟
میں اپنے کئی کالموںمیں اس حوالے سے ذکر کر چکا ہوں کہ ان پولیس اہلکاروں کے لیے حکومت مستقل بنیادوں پر کام کیوں نہیں کرتی، جب پاک فوج کے لیے سی ایم ایچ ہسپتال، تعلیمی ادارے اور بہت سی سہولیات میسر ہیں تو ان کے لیے الگ ہسپتال کیوں نہیں بنائے جاتے … اور اگر ایک فوجی شہید ہو جائے تو اس کے اہل خانہ کو گھر سے لے کر رقوم تک فراہم کی جاتی ہیں… جبکہ پولیس والوں کا کیا قصور ہیں… یہ اگر شہید ہو جائیںتو ان کے لواحقین دربدر کی ٹھوکریں کھاتے مر جاتے ہیں یا یو ں کہیے ایک پولیس اہلکار کی شہادت کے بعدپورا خاندان شہید ہو جاتاہے… جس پولیس اہلکار نے عوام الناس کے تحفظ کی خاطر جان دی، اور وہ اپنے فرائض منصبی پر لڑتا ہوا قربان ہوا، جس نے 20، 20گھنٹے مجرموں کا پیچھا کرتے ہوئے گزارے، جسے نظام کی فرعونیت نے دوام بخشا، جو زندگی بھر اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہیں اُٹھا سکا، کبھی احتجاج نہیں کر سکا، بلکہ دیگر احتجاجی تحریکوں کو اپنے قوت بازو سے حکومتی ایماء پر دباتا رہا، جو کسی احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتا رہا،،، جو حکومتی و غیر حکومتی شخصیات کے پروٹوکول کا حصہ رہا۔ دھوپ، بارش، آندھی اور طوفان میں بھی وہ ان شخصیات کی حفاظت پر مامور رہا جو اس وطن عزیز اور اس دھرتی پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ جب وہ ان فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت کا رتبہ نصیب فرماتے ہیں تو ایسی شہادت سے طبعی موت اچھی۔۔۔ کیوں کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کے خاندان کا جو حشر ہوتا ہے اسے عرف عام میں بیان نہیں کیا جا سکتا، شہید اہلکار کا خاندان نہ تو زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مُردوں میں،،، اس کی فیملی کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو آج کل بھارت میں دلتوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے یا اس سے بھی بدتر… بقول شاعر
زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے
پھر بھی ہنستا ہوں نئی آس لیے چہرے پر
ایک معمولی افسر سے لیکر وزیر اعظم تک سبھی اس غریب ملک کے شہنشاہ ہیں آپ پوش علاقوں میں چلے جائیں سینکڑوں کی تعداد میں 4، 4کنال کی کوٹھیاں نظر آئیں گی جو بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت ہوںگی، یہاں ہر سال افسران کے لیے نت نئی گاڑیاں خریدنا بیوروکریٹ اور اس کی فیملی کے لیے اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ میرے خیال میں ان تھانوں کی ظاہری حالت کو بہتر کرنے کے بجائے ان کے اندر بیٹھنے والوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ کرپشن کا سہارا ہی نہ لے سکیں… یہاں پولیس افسران آتے جاتے رہتے ہیں، مگر وہ بھی زبانی جمع خرچ اور اعلانات کے علاوہ کچھ نہیں کرتے…لہٰذاہمیں دونوں پہلوئوں کو مد نظر رکھ کر کام کرنا ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کو پولیس کے مسائل کو بھی حل کرنا ہو گا۔ انہیں بھی سننا ہوگا ورنہ سختی سے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں اور اس سے پولیس کا مورال بھی ڈائون ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ریاست ، عوام اورپولیس کا احساس محرومی !
Jan 22, 2019