اب ہندوستان میں پھر اک پاکستا ن

71 میں سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بڑے تکبر سے کہا تھا آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیاہے مگر چشمِ فلک نے گاندھی کے بقول خلیج بنگال میں ڈوبنے والے نظریے کو نیو دہلی اور بھارت کے چپے چپے پر للکارتا ہوا دکھا دیا ہے ۔آج یقینا ابوالکلام جیسے ہندو لیڈر شپ کی غلامی کا دم بھرنے والوں کی روحیں شرمندہ ہو رہی ہونگی۔یقینا بھارت کے مسلمان اپنے حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہیں مگر بھارتی مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے آزادی کی منزل پانا تجربہ سے ثابت شدہ ایک دھوکہ ہے۔ہندو اگرچہ مودی کے مخالف ہوں مسلمانوں کے کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتے۔ قیامِ پاکستان کیلئے شروع کی جانے والی تحریک آزادی میں بھی کافی لیڈر ابتدائی طور پر ہندو مسلم اتحاد کے دلدادہ تھے لیکن بالآخر انہوں نے جداگانہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تو آزادی کی منزل ملی۔آج تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے ۔برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک کے دوران ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز نے بے فائدہ قرار دیا اور اسے بارش سے بھاگ کرپرنالے کے نیچے کھڑا ہونا قراردیا ۔ تب مسلم لیگ کی قیادت نے برطانوی سامراج کے خلاف ہندوؤں سے علیحدہ جدوجہد کا راستہ اپنایا تب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ چنانچہ بھارتی مسلمانوں کو جناح والی آزادی تک پہنچنے کیلئے جناح والا راستہ بھی اختیار کرنا پڑے گا ۔اور وہ راستہ دو قومی نظریے کے جھنڈے کے نیچے جدا گانہ جدوجہد کا راستہ ہے ۔مسلم لیڈروں کو سیکولرازم کے راگ الاپنا چھوڑنا ہو گا ۔اگر شہریت کے متنازعہ قانون کو مظاہروں سے تنگ آکر مودی حکومت نے واپس بھی لے لیا تب بھی سیکولرازم سے ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو نہیں روکا جا سکتا ممکن ہے کہ وقتی طور پر چند ماہ کیلئے سکون ہو جائے مگر سیکولرازم سے رحم کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔لوگ کانگریس کے سیکولرازم قصیدے گاتے نظر آتے ہیں انہیں اپنی بند آنکھیں کھولنی چاہییںکیونکہ حالیہ مظاہروں میں جس نے لا الٰہ الّا اللہ جیسے مقدس نعرے پربھی اعتراض کر ڈالا وہ معروف کانگریسی رہنما ششی تھرورہی تھا چنانچہ مسلمان ہر گز کسی سیکولر پارٹی سے دھوکہ نہ کھائیں ۔ مسلمان اپنے احتجاج کا رُخ اگرچہ صرف مودی اور حکمران جماعت کی طرف رکھیں مگر عام ہندوؤں کی اسلام دشمنی بھی کبھی نہ بھولیں۔ آر ایس ایس کے سربراہ موھن بھاگوت نے یہ دعویٰ کیا ہے تمام 130کروڑ ہندوستانی اگر ہندوستان کوصرف ہندوؤں کی سرزمین تسلیم کرلیں اور اپنے آپ کو ہندو کہلوائیں تو انہیں ہندوستان سے نہیں نکالا جائے گا۔ اگر مودی کے اس کالے قانون کے پیچھے چھپے ہوئے شر کو دیکھیں تو اس کا اصل مقصد مسلمانوں کیلئے شہریت کا دروازہ بند کر کے انہیں معاذاللہ ہندو مذہب کی طرف موڑنا ہے مگر یہ انکی خام خیالی ہے ۔اگر کشمیر کے مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اتنے ظالمانہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی بُت کو سلام نہیں کیا تو بھارت کے مسلمان بھی ان شاء اللہ شہریت پر شریعت کو ترجیح دیں گے ۔اقتصادی اور اعتقادی دونوں قسم کے امور کے لحاظ سے بھارت کو سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہے بھارت کے اقتصادی امور کے ماہر’’ مرلی رام شرما‘‘ نے کہا ہے کہ بھارت کو مسئلہ صرف بیروز گاری کے محاذ پر ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کا معاشی ڈھانچہ اضطراب میں ہے ۔عالمی بینک نے بھارت کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر افریقی ملکوں کے زمرہ میں رکھ دیا ہے ۔ جبکہ مودی حکومت بننے کے بعد 2014ء سے ملک کی مائیکرو معاشی پالیسیاں معیشت کو سیکٹر رہی ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کساد بازاری اور بیروزگاری کا بلند ترین شرح پر پہنچنا لازمی تھا۔تاج محل ہے جسے دیکھنے کیلئے سالانہ تقریبا 65لاکھ سیاح بھارت کے شہر آگرہ کا رخ کرتے ہیں اور بھارت کو صرف انٹری فیس کی مد میں14ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے ۔موجودہ حالات میں یہ سلسلہ بھی بُری طرح متاثر ہو گیا ہے ۔سات مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو ہندوستان جانے کے حوالے سے خبردار کرنا شروع کر دیا ہے ، اس لحاظ سے بھی بھارتی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ( ختم شد)

ای پیپر دی نیشن