ناامیدی کے بڑھتے سائے

Jan 22, 2020

موجودہ حکومت کو ابھی اپنے ہنی مون پیریڈ کے ختم ہونے کا یقین آیا ہی تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ سال گزر گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ پچھلی حکومتوں کو سارے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے اور ان کی کرپشن کا نعرہ غیر مقبول ہوتا گیا۔ جس نئے پاکستان میں غربت کے خاتمے، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، کرپشن کے خاتمے IMF کی غلامی سے نجات، امیر غریب کے لئے ایک ہی قانون کی عملداری، پولیس اصطلاحات، حکومتی اللّوں، تللّوں پر اخراجات میں نمایاں کمی، گورنر ہاؤسز کو پبلک یونیورسٹیاں بنانے جیسے بلند و بانگ دعوے کئے گئے ان سے حکومت بہت دور کھڑی نظر آ رہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت میں آتے ہی ارباب اختیار پچھلی حکومتوں میں ملک کی بربادی کا رونا رونے کی بجائے دن رات انتھک کام کرتے اور ایسے اقدامات و پالیسیز اپناتے جس سے کم از کم لوگوں کو یہ یقین آتا کہ نئی حکومت درست سمت میں جا رہی ہے۔ ہم اگر ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کا جائزہ لیں تو وہ مایوس کن ہے۔ عوام پریشان اور گھمبیر مسائل میں گھرے ہیں جن میں مہنگائی ، بے روزگاری اور ٹیکسز کی بھر مار سرفہرست ہیں۔مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی عوام کا چینی اور ٹماٹر کے مہنگے ہونے کا رونا ختم نہیں ہوا تھا کہ ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہو گیا۔ آٹا کی فی کلو قیمت 30 روپے کے اضافے سے 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ بے حسی اور غیر سنجیدگی کی انتہا ہے کہ ایک حکومتی وزیر اس بحران سے نمٹنے کے لئے لوگوں کو تجویز کر رہی تھیں کہ وہ دو کی جگہ ایک روٹی کھانا شروع کر دیں۔ حکومت اشیاء ضروریات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ کھیت میں کسان کو ملنے والی قیمت اور جس قیمت پر صارفین سبزیاں اور پھل خریدتے ہیں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوز اور مڈل مین کھل کھیل رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ انتظامی معاملات میں حکومتی گرفت ناقابل بیان حد تک کمزور پڑ نا ہے۔
حکومتی دعوے اپنی جگہ کہ توازن ادائیگی کا کرنٹ اکاؤنٹ مثبت ہو رہا ہے۔،برآمدات بڑھ رہی ہیں،سٹاک ایکس چینج انڈکس اوپرجا رہا ہے، حکومتی بانڈز پر پچھلے چار ماہ میں 2.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے ان دعوؤں کو صحیح مان بھی لیا جائے تو غریب عوام کو معاشیات کے ان عشاریوں اور اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے سے کوئی غرض نہیں۔ اقتصادیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ حکومتی بانڈز پر جو پیسہ آتا ہے وہ Hot Moneyکہلاتا ہے اور کسی بھی وقت یہ اچانک جیسے آتا ہے نکل بھی جاتا ہے۔ پاکستان میں شرح سود اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان سے باہر رہنے والے اپنے ملکوں کے بنکوں سے کم شرح سود پر سرمایہ قرض لے کر ہمارے بانڈز خریدتے ہیں لیکن ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں حقیقی اضافہ صرف برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری میں مستقل اضافے سے ہی ممکن ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جو بجلی کی مد میں رعایت دے کر برآمدات میں اضافہ ہوا تھا وہ رعایت اب ختم کر دی گئی ہے۔ اب اس صنعت کو 11.70 روپے فی یونٹ کی بجائے 20 روپے فی یونٹ بجلی کا بل ادا کرنا پڑے گا جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا اور برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔ ترقیاتی کام ابھی تک شروع نہیں ہوئے۔ نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس سے معاشی شرح نمو کم ترین سطح پر گر چکی ہے اور نتیجتاً بے روزگاری پھیل رہی ہے۔
پیرس کا ریسرچ ادارہIPSOSجو دنیا کی تیسری بڑی سروے کرنے والی ایجنسی ہے نے پاکستان کے بارے میں پچھلے 6ماہ کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان کے 80فیصد افراد نے معاشی صورتحال کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ ہر 10 میں سے 9 افراد کی قوت خرید گری ہے۔ مہنگائی یہاں تک جا پہنچی ہے کہ لوگوں کی آمدنیاں اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے بھی کم پڑ گئی ہیں۔ اس سروے کے مطابق ہر 10 میں سے4شرکاء ایسے جوان افراد کو جانتے ہیں جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں، ملک میں سرمایہ کاری کا انڈکس19.6 سے گر کر 19.1 ہو گیا ہے۔ جاب کا انڈکس 52سے کم ہو کر 49 ہو گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 10.16 فیصد ہے جس کی بڑی وجہ IMF کا 6بلین ڈالر کا قرض ہے جس کے تحت بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔بیرونی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قدر کو ایک دم بہت زیادہ گرادیا گیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صارف کوئی بھی چیز خریدتے ہوئے قیمت میں بڑھوتری کی وجہ پوچھتا ہے تو فروختکار کا جواب ہوتا ہے دیکھو تو ڈالر کہاں پہنچ گیا ہے۔
حکومتی اعتماد میں کمی کا یہ حال ہے کہ اپوزیشن کیا اتحادی حتیٰ کہ کچھ وفاقی وزراء بھی اپنی ہی حکومت کی کارکردگی پرسوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو 2020کوتبدیلی کا سال کہہ رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال بھی الارمنگ ہے۔ ایم کیو ایم اپنا وزیر واپس بلا چکی ہے۔ باقی اتحادی بشمول پی ایم ایل کیو، بی این پی مینگل گروپ، جی ڈی اے بھی حکومت کو اپنے تحفظات پیش کر رہے ہیں۔ اتحادیوں کے موڈ میں یہ تبدیلی کسی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ،خدا نہ کرے ایسا ہو۔ لہٰذا اب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنی پوری توجہ بہتر گورننس اور ڈیلورنس پر مرکوز کرے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہواؤں کا رخ ہی بدل جائے۔

مزیدخبریں