نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں پر ایمسنٹی

وطن عزیز میں نان کسٹمز گاڑیوں کا استعمال عام ہو گیا ہے۔قانونی طور پر ایسی گاڑیوں کو باقاعدہ کسٹمز ڈیوٹی اداکرنے کے بعد استعمال میں لا جا سکتا ہے۔نان کسٹمز ڈیوٹی قیمتی گاڑیوں کوقانونی حیثیت دینے کے لئے بڑے بڑے لوگ اپنی گاڑیوں کے لئے غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیںاوربوگس کاغذات تیار کرانے کے بعد اپنے زیر استعمال لاتے ہیں۔جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ملک کے بعض حصوں میں نان کسٹمز گاڑیوں کے استعمال کی اجازت تو ہے جس میں گلگت  بلتستان، سوات اور سابقہ فاٹا جیسے علاقوں کے لوگ انتہائی قیمتی گاڑیوں کو افغانستان کے راستے لانے کے بعد نہ صرف اپنے استعمال میں لاتے ہیں بلکہ نان کسٹمز گاڑیوں کے جعلی کاغذات بنانے والے گروہ کے ارکان حکومت پاکستان کے خزانے  کے لئے بھاری مالی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔باخبر حلقوں کے مطابق اس بڑے دھندے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض ملازمین کی ملی بھگت بھی ہوتی ہے۔اس کے برعکس نان کسٹمز قیمتی گاڑیوں کو اسمگلنگ میں بھی زیر استعمال میں لا یا جاتا ہے پکڑجانے کی صورت میں ان گاڑیوں کو بعض سرکاری افسران اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔قانونی طور پر جن علاقوں میں نان کسٹمز گاڑیوں کے استعمال کی اجازت ہے اس حد تک تو درست ہے تاہم جب ایسی گاڑیوں کو جعلی دستیاوایزت بنانے کے بعد استعمال میں لا یاجاتا ہے تو ان کی حیثیت بدل جاتی ہے۔آج کل تو اسمگلنگ میں استعمال والی گاڑیوں کو اپنے بعض من پسند لوگوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔نان کسٹمز گاڑیوں کا جعلی کاغذات کی مدد سے استعمال میں لایا جاناکسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دھندہ چاروں صوبوں میں عروج پر ہے۔ایک دوسری صورت میں جب کسی گاڑی کو اسمگلنگ کے دھندے میں پکڑا جاتا ہے تو محکمہ پولیس، کسٹمز، اور ایکسائز والے ان گاڑیوں کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں حالانکہ اس طرح کی گاڑیاں جو کسی غیرقانونی دھندے میں استعمال لانے کی وجہ سے پکڑی جائیں  قانونی طور پر وہ مال مقدمہ ہوتی ہیں۔جب اسمگلنگ کرنے والے عدالتوں سے سزا یا ب ہو جاتے ہیں تو یہ گاڑیاں بحق سرکار ضبط کر لی جاتی ہیں۔بسااوقات اسمگلنگ میں پکڑی جانے والی گاڑیوں کے مالکان عدالتوں میں یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ان کی گاڑی کرایہ پر حاصل کی گئی تھی جس کے بعد وہ گاڑی کے اصل کاغذات عدالتوں میں پیش کرکے گاڑیوں کی سپردداری کر الیتے ہیں۔ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے انسپکڑ جنرل پولیس نے صوبائی ہوم سیکرٹری سے درخواست کی ہے کہ نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کو استعمال میں لائے جانے والوں سے واپس کراکر متعلقہ پولیس اسٹشینوں میں واپس جمع کرائی جائیں کیونکہ ایسی گاڑیاں تو مال مقدمہ کے زمرے ہیں آتی ہیں۔اپنے مراسلے میں آئی جی نے اپنی تشویش سے صوبائی سیکرٹری داخلہ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مال مقدمہ کی تمام گاڑیاں عدالتی کارروائی کے بعد کسٹمز اور ایکسائز کے محکموں کو واپس کی جانی چاہیں۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک میں غیر قانونی قیمتی گاڑیوں کا استعمال عام ہے بڑے بڑے لوگوں کے پاس بغیر کسٹمز ڈیوٹی دیئے گاڑیوں کی موجودگی نے معاشرے میں بگاڑ پید ا کر دیا ہے ۔ایک مقروض ملک میں بغیر ڈیوٹی ادا کئے قیمتی گاڑیوں کا عام استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔بعض ارکان اسمبلی اور وزراء کرام کے پاس نان کسٹمز گاڑیوں کی بھرمار ہے قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اگر کسی کو پکڑ بھی لیں تو ارکان اسمبلی کا استحقاق مجرو ح ہو جاتا ہے ۔ایک طرف حکومت قرضے اتارنے کے لئے کوشاں ہے جب کہ دوسری طرف اثر و رسوخ رکھنے والے بغیر کسٹمز ادا کئے قیمتی گاڑیوں کا سر عام استعمال کررہے ہیں لیکن کسی کو ان پر ہاتھ رکھنے کی ہمت نہیں۔اس میں شک نہیں کہ نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کو قانونی شکل دینے کے دھندے میں ان محکموں کے ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں لیکن حکومت کو اس طرح کے دھندے کے انسداد کے لئے حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔کے پی کے کے انسپکڑ جنرل کا اپنی حد تک یہ اقدام تو درست ہے کہ مال مقدمہ کی گاڑیوں کو استعمال میں لائے جانے کی بجائے انہیں متعلقہ تھانوں میں واپس کرنا چاہیے۔صوبہ پنجاب میں یہ پریکٹس تو عام ہے کہ پولیس اسٹشینوں پر کھڑی مال مقدمہ کی گاڑیاں بااثر لوگوں کو استعمال کے لئے دے دی جاتی ہیں قانونی طور پر تو پولیس یا یہ اقدام غلط ہے۔موجودہ حکومت کو نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو خصوصی ٹاسک دنیا چاہیے جن علاقوں میں نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کے استعمال کی اجازت ہے اس حد تک درست ہے لیکن ان علاقوں سے قیمتی گاڑیاں بہت کم قیمت پر خریدنے کے بعد انہیں قانونی شکل دینے کے لئے جعلی کاغذات کا سہارہ لینے والوں کی بیخ کنی کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔وفاقی حکومت جیسے اسمگلنگ کا مال پکڑنے والے کسٹمز افسران کو نقد انعامات دیتی ہے اسی طرح نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں اور بوگس کاغذات سے زیر استعمال گاڑیوں کو پکڑنے والوں کے لئے بھی نقد انعامات یا اعلان کرنے سے حکومت کے خزانے میں خاصا ریونیو جع ہو سکتا ہے جس کے لئے نئے اقدامات کرنے ہوں گے۔جس کاآسان طریقہ یہ ہو سکتا ہے ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں آنے والی نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کی جانچ پڑتال کا عمل شرو ع کیا جائے تو قومی خزانے میں بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے۔اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت کو کسی بھی بااثر فرد کا دبائو قبول نہیں کرنا چاہیے جس طرح وزیراعظم عمران خان این آر او دینے میں کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کر رہے ہیں یا جیسا کہ گذشتہ حکومت نے نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں پر تیس فیصد ایمنسٹی دی تھی اسی طرح نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں رکھنے والوں کو ڈیوٹی میں خصوصی رعائیت دے کر حکومت کے ریونیو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن