باغ سے اترنے والے پھل اور مچھلی میں اپنے دوستوں کیلئے حصہ رکھتے تھے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اس فارم میں فرصت کے لمحات گذار چکے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی میں ہوں یا مسلم لیگ ن میں انہیں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی قربت حاصل رہی اور ذاتی سطح پر تعلقات قائم رکھے۔ انہوں نے 74سال کی عمر میں کورونا سے لڑتے لڑتے شہادت پائی کورونا ٹیسٹ دو بار نیگیٹو آنے کے باوجود جانبر نہ ہو سکے ایک جرأت مند لیڈر کے طور جیل کاٹی گھر سے ان کیلئے کھانا جیل میں آتا تو اس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں عباس شریف اور حمزہ شہباز کا حصہ بھی ہوتا وہ جب تک جیل رہے۔ الحاج محمد نواز کھوکھر ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے وہ پہلی بار 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بعد ازاں وہ دوبار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جب دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے رہے اور آخری وقت تک پارٹی کا ساتھ نبھایا، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر انکے بڑے صاحبزادے ہیں وہ اس وقت سینیٹ کے رکن اور بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان ہیں الحاج محمد نواز کھوکھر جہاں ایک ذاتی زندگی میں بہترین منتظم تھے، وہاں وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے کاروبار اور لین دین کے کھرے کسی شخص نے انکے لین دین کے بارے میں شکایت نہیں کی ، وہ حد درجہ کھلے دل کے مالک تھے، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن، چندسال قبل انہیں چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں انتخابی دنگل میں اتارنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ وضعدار شخص تھے۔ انہوں نے چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا مسلم لیگ ن میں تھے تو نواز شریف کے وفادار رہے، مگر جب مسلم لیگ (ن )سے الگ ہوئے اور پیپلزپارٹی میں واپس آئے تو عمر بھر پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ، وہ وضع دار شخص تھے کھوکھر ہائوس میں آنے والا اپنا کام کرائے بغیر کبھی واپس نہیں لوٹا 1997 میں پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے رہے اور آخری وقت تک پارٹی کاساتھ نبھایا ، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر انکے بڑے صاحب زادے ہیں۔ الحاج محمد نواز کھوکھرنے انکے سیاسی جانشین ہونے کا حق ادا کر دیا اور دنوں میں اپنے آپ کو قومی سطح پر متعارف کرا دیا جب کہ افضل کھو کھر حلقے کی سیاست کر رہے ہیں ، الحاج محمد نواز کھوکھر کی وفات سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑی حد جبکہ ملکی سطح پر کسی حد تک پیپلز پارٹی متاثر ہوئی ہے۔
پارٹی کیلئے جب بھی ضرورت پڑی، ان کی جیب نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، پارٹی لیڈر شپ کے ساتھ انکی وفاداری بھی ایک مثال تھی۔ 1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بہت بری انتخابی شکست ہوئی تھی، پنجاب میں اسکی دور دور تک کوئی نشست نہیں تھی، سندھ میں اسے کامیابی ملی تھی، یوں اس طرح پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں ایک چھوٹی پارلیمانی جماعت بن گئی ، انتخابات کے نتائج کے دو چار روز بعد الحاج محمد نواز کھوکھر نے اپنی رہائش گاہ ایف ایٹ ناظم الدین روڈ میں افطار ڈنر دیا، محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور دیگر سیاسی اتحادی رہنماء اور میڈیا کے لوگ بھی افطار ڈنر میں موجود تھے، انتخابی عمل میں مداخلت سے متعلق حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ ’’انہوں‘‘ نے ٹھپے لگائے ہیں، انتخابات میں مسلم لیگ (ن) دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اسی پس منظر میں ان سے میڈیا نے سوال کیا کہ سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے آپ کتنے عرصے کیلئے پارٹی میں رہیں گے۔ الحاج محمد نواز کھوکھر نے جواب دیا تھا کہ ’’ اب پکا فیصلہ کرلیا ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہوں گا، اور کسی اور طرف جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ الحاج محمد نواز کھوکھر کا یہ جواب محترمہ بے نظیر بھٹو کیلئے خاصا حوصلہ افزاء تھا، حوصلہ افزاء اس لئے کہ ملک میں سیاسی منظر نامہ ایک سو اسی کے زاویے کے ساتھ تبدیل ہوا تھا، چند ہفتوں کے بعد نو منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، الٰہی بخش سومرو قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے، سپیکر شپ کیلئے انکے انتخاب نے پیپلزپارٹی کیلئے بہت سے سوالات رکھ دیے تھے، مگر نہائت چھوٹی سی پارلیمانی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ اس وقت کی لیڈر آف اپوزیشن بے نظیر بھٹو نے کہا کہ’’ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے، یہ ابھی ابتداء ہے اگر یہی ماحول اور رویہ رکھا گیا تو آپ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکیں گے‘۔‘ بے نظیر بھٹو نے یہ چیلنج دوتہائی اکثریت والی پارٹی کو دیا تھا، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ دوتہائی اکثریت والی نواز شریف حکومت محض دو اڑھائی سال کے بعد ہی بارہ اکتوبر1999 میںبر طرف کردی گئی، آئی جے آئی کے زمانے میں الحاج محمد نواز کھوکھر نواز شریف کیساتھ تھے، ملک میں سیاسی کشمکش بھی عروج پر تھی، یہ وہی زمانہ ہے کہ جب ملک کی کچھ سیاسی شخصیات کیلئے ’’من و سلوی‘‘ اتارا گیا، الحاج محمد نواز کھوکھر اس’’ من و سلویٰ ‘‘کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، یہی کیس بعد میں اصغر خان کے ذریعے سپریم کورٹ تک پہنچا، بڑے بڑے سیاسی نام ان کی پیٹیشن میں لئے گئے، یہ سب کچھ سچ تھا، یہ سچ کبھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ من و سلوی ان سیاسی رہنمائوں کے گھروں تک کس طرح پہنچایا گیا تھا، ایک سیاسی جماعت نے اعلی عدلیہ میں لکھ کر تحریری جواب میں کہا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ سچ سچ ہی ہوتا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، یہ سب کچھ ہماری سیاسی زندگی کا ایک ایسا سچ ہے جسے کوئی بھی بیان نہیں کرسکے گا، یہ سب حقائق نواز کھوکھر اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں، حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا،عام لوگوں کیلئے وہ ایک سیاستدان تھے،لیکن ان کی زندگی کا ٓخری وقت یاد اللہ میں گذرتا وہ ایک دینی شخصیت بن چکے تھے انکی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے وہ عشق رسولﷺ سے سرشار تھے غریبوں میں اپنی دولت لٹاتے رہتے تھے ان کے ملک کے ہر بڑے سیاسی خاندان سے ذاتی مراسم تھے۔ وہ انتہائی شفیق ملنسار تھے کھوکھروں جیسا دبدبہ نہیں تھا الحاج نواز کھوکھر عاجزی سے گفتگو کرتے میں جب بھی ٹیلی فون کرتا وہ خود بات کرتے اور ’’حاجی صاحب ‘‘ کہہ کر بات کرتے ان کا سلسلہ ارادت پیر صاحب گولڑہ شریف سے تھا۔ انہوں نے ہی انکی نماز جنازہ پڑھائی۔ الحاج محمد نواز کھوکھر روزنامہ نوائے وقت سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔اور ۔جناب مجید نظامی کے ساتھ ان کا احترام کا رشتہ عمر بھر قائم رہامصطفیٰ نواز کھوکھر،عثمان نواز کھوکھر حسین نواز کھوکھر الحاج محمد نواز کی قائم کی ہوئی روایات کے امین ہیں جو انکی سوچ پر عمل کر کے اپنے عظیم والد کا نام روشن کریں گے ۔ (ختم شد)