لاہور (عثمان مسعود/ فاخر ملک ) حکومت پاکستان پولٹری انڈسٹری کے بارے میں پالیسی اور رویہ تبدیل کرے تو برآمدات کے ذریعے پانچ ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے نہ صرف ہزاروں افراد کے روزگار میں اضافہ بلکہ برائلر گوشت کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔ یہ بات پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (نارتھ) کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالکریم بھٹی نے نوائے وقت کے ساتھ ایک پینل انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پولٹری کا کاروباری حجم 1100۔ ارب روپے ہے جس میں سے حکومت لگ بھگ -150 ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرتی ہے۔ جبکہ پولٹری انڈسٹری میں استعمال ہونے والی تمام ادویات کا خام مال، کیمیکلز اور ویکسین درآمد ہوتی ہے جو کہ مجموعی اخراجات کا -60 فیصد ہے اگر حکومت اس صنعت کی حوصلہ افزائی کرے تو پولٹری ویکسنز اور کئی کیمیکلز مقامی طور پر تیار کئے جا سکتے ہیں جس سے زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سات سالوں میں پولٹری انڈسٹری کے اخراجات میں -150 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن برائلر گوشت کی قیمت میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوا جبکہ حکومتی اہلکاروں کا تمام تر زور قیمتوں پر ہوتا ہے جو درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فارمز زندہ مرغی کا سٹاک نہیں رکھ سکتے اور اسے پانچ دنوں کے اندر فروخت کرنا ہوتا ہے اس لئے قیمت کا تعین طلب اور رسد کی بنیاد پر ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ مرغیوںکو بیماری سے بچانے اور صاف ستھرے گوشت کیلئے ہمیں انٹرنیشنل سٹینڈرز کو اپنانا ہو گا اور زندہ مرغی کی موومنٹ کی بجائے گوشت کی موومنٹ کا اصول اپنانا چاہیے یہ قدم پولٹری گوشت کی قیمت میں کمی کا سبب بنے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ زندہ مرغی کی موومنٹ کو 40 سے 50 کلومیٹر تک محدود کر دے اور اس سے زیادہ فاصلہ پر زندہ مرغی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے پر پابندی عائد کرے۔ اس سے شہروں میں صفائی کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اس ضمن میں ٹولنٹن مارکیٹ کی مثال دی اور کہا کہ وہاں کا نظام صفائی کا منہ چڑاتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چکن انرجی کا بہترین ذریعہ ہے جس کا کوئی سستا متبادل نہیں جبکہ چھوٹے گوشت، بڑے گوشت مچھلی اور دیگر کے متبادل ذرائع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان انڈوں کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ انہوں نے ایک سوال پر بتایا کہ 2013ء میں پولٹری انڈسٹری جو کہ خوراک کی فراہمی کا اہم ذریعہ اور فوڈ کی مدد میں آتا ہے ہر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔ اب اس پر لگ بھگ -30 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ پولٹری انڈسٹری کے خام مال کو ٹیکس اور ڈیوٹی فری کر دے تو پاکستان اپنے حریف برآمدی ممالک امریکہ، برازیل اور بھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے اور بالخصوص سعودی اور خلیجی ممالک کی منڈیوں میں پاکستان کا نام بلند کر سکتا ہے اگر درآمدات پر محصولات ختم کر دئیے جائیں اور -5 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کا ہدف حاصل کر لیا جائے تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ انہوں نے پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران چکن کی کھپت میں 10 سے 15 فیصد تک کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل کو توانا رکھنے اور بیماریوں سے بچانے کیلئے حکومتی سکولوں میں مرغی کا گوشت اور ایک انڈا فراہم کرنے کا کووڈ سے پہلے تجربہ بہت کامیاب رہا۔ اس سے اڑھائی کروڑ بچوں کو بیماریوں کے مقابل مدافعت بڑھانے کا موقع ملا۔ اس تجربہ کو وسیع پیمانہ پر دہرانے کی ضرورت ہے۔