ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر پشاور‘ کوئٹہ اور اسلام آباد کے بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور تک آگئی۔ گزشتہ روز نئی انارکلی لاہور میں پان منڈی کے قریب بم دھماکہ میں ایک 9 سالہ بچے سمیت تین افراد شہید اور 29 زخمی ہوگئے جنہیں فوری علاج معالجہ کیلئے قریبی میو ہسپتال اور سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ان میں متعدد زخمیوں کی حالت نازک بیان کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ دھماکہ جمعرات بعداز دوپہر ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ایک عمارت منہدم ہو گئی جبکہ متعدد عمارتوں کی کھڑکیاں اور شیشے ٹوٹ گئے اور وہاں کھڑی آٹھ موٹر سائیکلوں اور ریڑھیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ دھماکے سے علاقے میں بھگدڑ مچ گئی۔ زخمیوں اور دیگر افراد نے چیخ و پکار شروع کر دی اور لوگ جانیں بچانے کیلئے بھاگ نکلے۔ دھماکے سے پورا علاقہ لرز اٹھا اور اسکی آواز دور دور تک سنی گئی۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق اس پلانٹڈ دھماکے میں ڈیڑھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا جو موٹر سائیکلوں کے پاس بکس میں نصب کرکے رکھا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے انارکلی دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے ابتدائی تحقیقات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے دھماکے کے ذمہ داروں کو فوری گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی دہشت گردی کے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکہ کرنیوالے قانون سے بچ نہیں پائیں گے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انارکلی دھماکہ کی ذمہ داری بلوچ نیشنل آرمی نے قبول کرلی ہے۔
اس دھماکے کے پس پردہ مقاصد و محرکات تو پولیس کی حتمی انکوائری رپورٹ سے ہی معلوم ہو سکیں گے۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیان سے بادی النظر میں اس دھماکے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ملوث نظر آتا ہے جن کے بقول کالعدم ٹی ٹی پی سے سیزفائر ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز انارکلی دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ شہروں کیلئے ریڈالرٹ جاری کیا جا چکا تھا جن میں لاہور بھی شامل ہے۔ انکے بقول اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں کہ لاہور دھماکے میں کون ملوث ہے۔
یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ افغانستان پر طالبان کے غلبہ کے بعد بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں جنہیں طالبان قیادت کی جانب سے ہتھیار ڈالنے اور پرامن شہری بن کر رہنے کا کہا بھی گیا مگر کالعدم ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی ہدایات بھی درخوراعتنا نہ سمجھیں جبکہ پاکستان حکومت کی جانب سے بھی انہیں متعدد بار وارننگ دی گئی کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کردیں۔ اسکے باوجود انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور گزشتہ ماہ جب انہوں نے سیز فائر ختم کرنے کا بھی اعلان کر دیا تھا تو انٹیلی جنس اور سکیورٹی ذرائع کی جانب سے ان پر کڑی نگرانی رکھنے اور انکے ٹھکانوں پر ٹھوس اپریشن کرنے کی ضرورت تھی۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے سیزفائر ختم کرنے کے بعد نہ صرف کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی دہشتگردی کی کارروائیاں بڑھائیں بلکہ انکی ذمہ داری بھی قبول کی جاتی رہی جو لامحالہ حکومتی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جبکہ انکے کھل کھیلنے سے اس بارے بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ انہیں پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے انتشار پھیلانے کیلئے ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کی سرپرستی اور فنڈنگ حاصل ہے جس کا بھارتی اعلیٰ حکام اعلانیہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ نتیجہ اخذ کرنا قرین قیاس نظر آتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گردوں کو ہماری سکیورٹی فورسز میں موجود لیپس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔
بے شک افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے باعث پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بدگمانیاں بھی پیدا ہوئی ہیں جبکہ اب افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے اور طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کیلئے بھی پاکستان اقوام عالم میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے جس کیلئے پاکستان کی میزبانی میں ٹرائیکا پلس سمیت متعدد نمائندہ عالمی اجلاس بھی منعقد ہو چکے ہیں جس پر طالبان حکومت کو پاکستان کے ساتھ مسلم برادرہڈ کی بنیاد پر خوشگوار مراسم کی جانب بڑھنا چاہیے تاہم بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ طالبان حکومت خود بھی پاکستان کے حوالے سے بعض تحفظات کا شکار ہے جس کا عندیہ بھی طالبان حکام کی جانب سے دیا جا چکا ہے۔
اس صورتحال میں ہمیں لازمی طور پر اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور افغانستان کی ایسی حکومت کے ساتھ جس کی جانب سے فی الوقت ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی نہ آرہا ہو‘ تعلقات بڑھاتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے ہرگز نہ چھوڑا جائے اور سنجیدگی کے ساتھ اس امر کا ضرور جائزہ لیا جائے کہ طالبان حکومت کا بے لوث ساتھ دیکر کہیں ہم اقوام عالم میں تنہائی کا شکار تو نہیں ہو جائیں گے۔ بھارت تو یقیناً موجودہ صورتحال میں دہرا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسے افغانستان میں طالبان کے غلبہ کے بعد جو ہزیمت اور خفت اٹھانا پڑی‘ اس کا بدلہ وہ پاکستان سے لینے کی ٹھانے بیٹھا ہے۔ اس حوالے سے وہ جہاں کالعدم ٹی ٹی پی کی سرپرستی کرکے اسے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے سرگرم کر چکا ہے وہیں وہ طالبان حکومت کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی سازشیں بھی بروئے کار لا سکتا ہے اس لئے ہمارے حکمرانوں کو جہاں بھارت کے ساتھ تجارتی مراسم کی بحالی کے معاملہ میں محتاط رہنا ہے وہیں ہمارے سکیورٹی اداروں کو بھی دہشت گردی کے ہر روٹ کاز کا کھوج لگانا انکی مکمل سرکوبی کیلئے متحرک ہونا ہوگا۔
بے شک ہماری عسکری قیادتوں نے آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا عزم باندھا ہوا ہے اور اب تک اس جنگ میں بیش قیمت قربانیوں کے ساتھ بیشتر کامیابیاں بھی حاصل کی گئی ہیں تاہم ملک میں پھیلنے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر اس امر کی متقاضی ہے کہ آخری دہشت گرد تک کے مارے جانے کا ہدف بہرصورت پورا کیا جائے بصورت دیگر تاک میں بیٹھا ہمارا دشمن ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر انارکلی دھماکے میں بلوچستان کی عسکری تنظیم بی این اے بھی ملوث ہے تو بھی اس میں بھارتی ’’را‘‘ کا ہاتھ خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا جو پہلے ہی بلوچستان کی خود ساختہ علیحدگی پسند تنظیموں کی سرپرستی اور فنڈنگ کرکے انہیں پاکستان کی سلامتی کیخلاف کھلم کھلا استعمال کررہی ہے۔ حکومت کی جانب سے انارکلی دھماکہ کے ملزموں کو اگرچہ کیفرکردار کو پہنچانے کا عزم باندھا گیا ہے تاہم ایک عرصہ سے امن و امان کا گہوارا بنے لاہور کو پھر انسانی خون میں نہلانے کا واقعہ ہماری حکومت اور انتظامیہ کیلئے لمحۂ فکریہ ضرور ہے۔ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے جس میں کسی قسم کی غفلت و کوتاہی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔