مکرمی! قیام پاکستان سے لیکر اب تک مختلف مراحل پر پارلیمانی سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں جلسے جلوس ہڑتالیں تحریکیں دھرنے محلاتی سازشیں ہوتی چلی آرہی ہیں۔ حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں۔ نتیجتاً معیشت کمزور ہوتی چلی گئی ۔ سیاستدان مضبوط ہوتے چلے گئے۔ غریب محنت کش مزدور کا استحصال کیا جانے لگا۔جاگیرداروں کا تیار کردہ آئین پارلیمانی سسٹم بری طرح ناکام ہوچکاہے۔ حکومت اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ خانہ جنگی کی سی حالت ہوجاتی ہے۔ حکمران ملک اورعوام کو بھول جاتے ہیں ۔ حکومت اقتدار بچانے کے لیے قومی خزانہ مراعات، اتحادیوں، الیکٹیبلز پر نچھاور کردیتی ہے۔ نتیجتاً عوام بھوکے ننگے کنگال ننگ دھڑنگ ۔ ملک قرضوں میں غوط زن ہے ۔ پس ماندہ ترقی پذیر بن کررہ گیا۔ ہر الیکشن میں سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ پارلیمانی نظام، جاگیرداری،کرپشن مہنگائی لازم و ملزوم میں سرمایہ ملک سے باہر چلاجاتاہے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے سپر پاور،جبکہ ہم انٹر نیشنل بھکاری بن گئے۔ ملک غیروں کے پاس گروی رکھ دیا جاتاہے۔ جب تک ملک میں پارلیمانی سسٹم موجود ہے۔ روٹی کپڑا مکان، تبدیلی، نیا پن، ریا ست مدینہ کے دور، دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔ یہ سسٹم اشرافیہ کے لیے گولڈن برڈ۔ جبکہ عام آدمی کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ ووٹوں کی خریداری ہارس ٹریڈنگ، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت ملکی وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ 70 ستر فیصد ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں قوم کو غلط راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔جاگیرداروںکامحافظ پارلیمانی سسٹم بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دولت اقتدار چند ہاتھوں خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی محنت کش طبقہ کا حکومت سازی میں کوئی عمل دخل حصہ نہیں۔ آج تک کسی اسمبلی نے زمین کی حد ملکیت مقرر نہیںکی۔ اور نہ ہی زرعی پیداوار پر ٹیکس عائد کیا۔ مارشل لائ، صدارتی، پارلیمانی نظام آزمائے جا چکے اب موجودہ حالات میں بہتر ہے کہ متناسب نمائندگی سسٹم آزمایا جائے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے، قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے متناسب نمائندگی سسٹم کے تحت جنرل الیکشن کرائے جانے چاہیں۔(مرزا منظور احمد ،جڑانوالہ)