دنیا بھر میں جب سال 2022 ء کا سورج طلوع ہوا تو ہر کوئی ایک نئی امید،نئے جذبے،نئی ہمت کے ساتھ بیدار ہواکہ نیا سال امن،عزت اورخوشی کا سال ثابت ہوگا اسی امیدکے ساتھ جب انڈیا میں رہنے والی مسلمان خواتین بیدار ہوئیں توان کا امن ،عزت اور خوشی والا خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکا تھا۔نئے سال کا سورج ایک خوفناک منظر لئے ان کا استقبال کررہا تھادراصل انٹرنیٹ پر انڈیا میں رہنے والی مسلمان خواتین کو نیلامی کے لئے پیش کیا گیا تھا ،ان کی نازیباتصویریں بنا کر اورذاتی معلومات اپلوڈ کرکے آن لائن بولیاں لگائی جارہی تھیں۔ مسلمان خواتین اور ان کے اہل خانہ اس غیر متوقع لیکن انتہائی گھٹیا واقعہ سے بالکل لاعلم تھے۔،شرمندگی اور پریشانی کے عالم میں وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے کیونکہ انڈیا کا فسادی زمانہ کچھ جانے بغیر ان پرانگلیاں اٹھا رہا تھا، آوازیں کس رہا تھا۔
قطرکے نشریاتی ادارے’’ الجزیرہ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ سو سے زائدمسلمان خواتین کی تصاویر اوران کی ذاتی معلومات کوٹوئٹر سے حاصل کرکے بھارت کی ایک شرمناک ایپ’’بُلی بائی‘‘’’Bulli Bai‘‘ پر اپلوڈ کرکے انھیں نیلامی کے لئے پیش کیا گیاہے۔ان میں سے بیشتر مسلمان خواتین عالمی سطح پر شہرت بھی حاصل کرچکی ہیںجن میں کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی،بھارتی مسلمان اداکارہ شبانہ اعظمی،دہلی ہائی کورٹ کے جج کی اہلیہ، کشمیری صحافی قرۃ العین رہبراور دیگر مسلمان سیاستدان اور سماجی کارکن خواتین شامل ہیں۔ آن لائن’’بُلی بائی‘‘ ایپلی کیشن اوپن سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ سائٹ ’’GitHub ‘‘پر بنائی گئی تھی۔انڈیا میں رہنے والی مسلم خواتین کے خلاف یہ شرمناک ایپ اس بات کا کھلے عام اعلان ہے کہ اب انڈیا میں مسلمان خواتین کی عزتیں بالکل محفوظ نہیں رہیں جس طرح باپردہ خواتین کا آن لائن جنسی استحصال کیا جارہا ہے،آنے والے وقت میں مقبوضہ کشمیر کی طرح انڈیا میں بھی مسلمان خواتین کی عزتوں کی پامالی کے واقعات بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ انڈیا خواتین کے لئے ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میںاعتراف کیا ہے کہ ’’ملک(انڈیا) میں خواتین کی توہین ہورہی ہے اور سماجی ہم آہنگی کی بنیادیںکمزور ہوتی جارہی ہیں‘‘راہول گاندھی نے یہ بیان اس وقت دیا ہے جب نئے سال کے آغاز پر انڈیا میں مسلمان خواتین کی کھلے عام توہین کی جارہی ہے۔بھارت میں مسلمانوں سے نفرت اور انتہاپسندی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس پر مودی سرکار اور ان کے منتری سیاست چمکا رہے ہیں۔
ایک طرف انڈیا کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشوینی ویشنو ٹویٹ کرتا ہے کہ’’گٹ ہب، جس پر ایپ اپ لوڈ کیا گیا تھا، نے ’’ بلُی بائی‘‘ایپ کو بلاک کردیا ہے ۔‘‘ دوسری جانب مہاراشٹر میں حکمران شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی کہتی ہے کہ ’’میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشوینی ویشنو سے کہا ہے کہ’’ سلی ڈیلز‘‘ جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جہاں عورتوں سے نفرت اور انہیں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں، شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘ پرینکا چترویدی نے جس ’’سلی ڈیلز‘‘ نامی ایپ کا ذکر کیا ہے دراصل یہ ایپ گذشتہ برس سامنے آئی تھی۔اس لئے اگر دیکھا جائے تومسلمان خواتین کی تصاویر شیئر کرکے انھیں نیلامی کے لیے پیش کرنے کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں بلکہ گذشتہ برس بھی اسی طرح ایک بھارتی شرمناک ایپ’’ سلی ڈیلز ‘‘ میں80 سے زائد مسلمان خواتین کو فروخت کے لیے پیش کرکے ان کی توہین کی گئی تھی۔اس ایپ کے اوپری حصے میں لکھاگیا تھا’’ فائنڈ یور سلی ڈیل‘‘جس پر کلک کرنے پر ایک مسلمان خاتون کی تصویر، نام اور ٹوئٹر ہینڈل کی تفصیلات صارفین سے شیئر کی جا رہی تھیں۔
عالمی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی سرکار مسلمانوں کی آواز دبانے کے لئے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مودی سرکار نے سائبر کرائم کے حوالے سے بھی دوہرا قانون بنا رکھا ہے جس کے تحت مودی سرکار پر کی جانے والی تنقید یا بیانات پر فوری اور سخت ایکشن لیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں خصوصا خواتین کا آن لائن جنسی استحصال کرنے والی ویب سائٹس پر نہ ہی پچھلے سال کوئی موثر کارروائی کی گئی تھی اور نہ ہی اب ذمہ داروں کوسزائیں دی جائیں گی جس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ان شرمناک ویب سائٹس کے پیچھے بھی انتہا پسند ہندوتنظیموںکا ہاتھ ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو انڈیا میں مسلمان خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔