سنا ہے کچھ خواب بالکل سچ ہوتے ہیں خاص طور پر کبھی کبھار آنے والے خواب حقیقت ہی ہوتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے مجھے بھی اِک خواب آیا، انتہائی خوبصورت جگہ تھی، جگہ جگہ پھول، پودے اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی کا سماں تھا۔ جس شخص کو دیکھو ہنستا مسکراتا، گنگناتا ہوا اپنے راستے پر گامزن تھا۔ مجھے حد سے زیادہ حیرت ہوئی ، سخت محنت کرنے والے اور مزدور بھی ہنس ہنس کر اپنا کام سرانجام دے رہے تھے۔ اْنکے چہروں کی لالی اور اطمینان اْنکی خوشحالی اور سکون کو ظاہر کررہی تھی۔ ہر طرف سڑکیں اور بلندوبالا عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں اور یہ کام نہایت جوش وخروش اور تیزی سے جاری تھا۔مجھے ایک بھی شخص بیروزگار دکھائی نہیںدیا۔ یہ شہر نہیں ایک حیرت کدہ تھا۔ ہر طرف چین تھا۔ کچھ لوگ ملک کے سیاستدانوں پر گفتگو فرما رہے تھے اور ہاتھ اْٹھا اْٹھا کر بعض دعائیں دے رہے تھے کہ ہمیں ایسا بابرکت نیک اور رعایا سے ازحد محبت کرنے والا وزیراعظم ملا ہے۔ جس نے آتے ہی ہر ضرورت کی چیز کو ٹکے بھائو کر دیا ہے۔ملک سے بیروزگاری، مہنگائی کا فوراً سے پہلے خاتمہ کردیاہے۔ میں حیرت کے اس جہان میں اسی طرح گھوم رہی تھی جیسے کوئی پرستان میں گھوم رہا ہو۔ رنگ رنگ کے کھانے فری تقسیم ہورہے تھے۔ عورتیں کھلکھلاتی، مسکراتی، مہنگے لباس زیب تن کئے گھوم رہی تھیں۔ہر کوئی اپنے بادشاہ اور وزیر کے گن گا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ روئے زمین پر ہمارے دیس جیسا کوئی بامثال دیس نہ ہوگا۔ میں اسی خوشی کا احساس لئے اس شہر کی سیر کرتی رہی کہ اچانک مجھے ہزاروں کی تعداد میں خوشنما گھر بھی تعمیر ہوتے دکھائی دئیے۔ جو نہایت کم قیمت پر عنقریب تقسیم ہونیوالے تھے۔ اچانک کسی کی خوشی سے چیختی آواز سنائی دی۔ آج کی تازہ خبر، سبزیوں، پھلوں ،دالوں اور گوشت کو عوام کیلئے مفت دیا جائیگا اور آئندہ ہر ہفتے انکی قیمتیں بڑھنے کی غلطی پرحکومت خود کو سزا دیگی۔یا اللہ اتنا رحم میں نے آج تک ملاحظہ نہیں کیا تھا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ میں اس نایاب دیس میں آپہنچی ہوں۔ اب کوئی غم نہیں رہے گا۔ میں تو خود ایک نہیں آٹھ دس پلاٹ خریدوں گی۔ تین چار لگژری گاڑیاں تو ضرور پسند کروں گی۔ آپ کو بتانا تو یاد نہیں رہا کہ ایک روڈ پر گاڑیوں کی سیل لگی ہوئی تھی۔ ملک کے بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ گاڑیاں مزید سستی کر دی گئی ہیں۔ ہرسال ان کی سیل بھی لگا کریگی۔ موبائل فون تو مہنگے سے مہنگا بچے بچے کے ہاتھ میں میں نے خود دیکھا۔ حالانکہ موبائل فون پر17 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ بادشاہ نے کہا ہمارے عوام نہایت خوشحال ہیںتین راتوں میں ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کا صرف ایک تفریحی مقام کی سیر کیلئے جانا واقعی خوشحالی، سکون اور زندہ دلی کی مثال ہے۔لہٰذا چھوٹے چھوٹے بجٹ اس عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اسی خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے سونے چاندی پر ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر17فیصد کر دیا گیا ہے۔ ماچس، ڈیری کی مصنوعات، الیکٹرک سوئچ پر 17فیصد ٹیکس ہے۔ آئل سیکٹر کی درآمد پر ٹیکس ایک فیصد سے 17فیصد کیا جارہا ہے۔مائننگ کیلئے درآمد مشینری پر17فیصد نیا ٹیکس لگے گا۔ پرچون فروشوں کا ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر17فیصد کر دیا گیا ہے۔ ساشے میں فروخت ہونیوالی اشیاء پر ٹیکس بھی17فیصد ہے۔غیر ملکی سرکاری تحفوں اور عطیات پر بھی17فیصد ٹیکس ہے۔ مرغی کے گوشت پر17فیصد ٹیکس، پراسس شدہ دودھ پر10فیصد سے بڑھا کر17فیصد ٹیکس، دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر بھی 10فیصد سے بڑھا کر17فیصد ٹیکس کردیا گیا ہے۔ ملٹی میڈیا اور بیٹری پر بھی 12سے17 کا نیا ٹیکس کر دیا گیا ہے۔ بڑی کاروں پر بھی 17 فیصد ٹیکس ہوگا۔ بزنس ٹو بزنس رقم کی منتقلی پر بھی 17 فیصد ٹیکس ہوگا۔بس بس میں نے بتانے والے کو ہاتھوں کے اشارے سے روک دیا۔ میری آنکھوں میں تو اتنے نیک دل بادشاہ کیلئے آنسو ہی آگئے۔تبھی میں سوچوں کہ امریکہ، جاپان اور چائنا آپ کو حسرت بھری نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ آج مجھے سمجھ میں آیا کہ دنیا کی آدھی آبادی آپ سے اتنا حسد کیوں کرتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ساری دْنیا آپ سے تجارت کرنے کی خواہش کیوں کرتی ہے۔ آپ کی بنائی ہوئی برانڈز کی دنیا بھر میں شہرت ہے اور انکی مانگ میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ صنعت کار مزید صنعتیں لگا کر اس مانگ کو پورا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ شکر کریں آپ لوگ کہ ٹیکس 17 فیصد سے زیادہ نہیں لگے گا۔ حالانکہ آپ لوگ اتنی دولت کے انبار لے کر صبح وشام بے خوف وخطر پھرتے ہیں کہ ٹیکس کم از کم 70فیصد ہونا چاہئے تھا۔ ابھی میں مقام حیرت پر کھڑی یہ دلکش نظارہ کر رہی تھی کہ ایک طرف سے شور شرابہ اْٹھا کہ ملک میں کچھ دہشتگرد لوگ گھس آئے ہیں۔ یہ چور ڈاکو اور دہشت گرد ملک پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہ سلامت کا تخت چھین لیا ہے۔ میری حیرت دوسرا رخ اختیار کرچکی تھی، میں پریشان تھی کہ ریاکاری سے پاک، ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے محروم عوام پر کوئی ایسا عذاب کیسے نازل کرسکتا ہے؟ اتنے رحم دل بادشاہ سے سلطنت کیوںچھینی گئی ہے؟ اچانک آدھی رات کو ٹرانسفر کے جلنے کے دھماکے سے میری آنکھ کھل گئی ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔