سانحہ مری بارے پنجاب حکومت کی انکوائری رپورٹ کا اعلان اور پھر زمہ دار قرار پانے والے افسران کے خلاف کاروائی خوش آئند ہے مگر ایک تشنگی بھی ہے ، مثلا کیا متعلقہ افسران ہی اس کے زمہ دار تھے یا دیگر محکموں نے بھی غفلت و لاپروائی کا مظاہرہ کیا ، وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کمزور کو نشان عبرت بنانے کی روش بھی جاری وساری رہی ، سرکاری افسران کو معطل کرنے کی روایت بھی سالوں سے نہیں دہائیوں سے جاری وساری ہے چنانچہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ ہمارے ہاں بڑے سے بڑے سانحہ کے کے باوجود ایسے اقدمات اٹھائے جاسکتے ہیں جو مسقبل میں کسی اور ہولناک تباہی کو رونما نہ ہونے دیں ، شائد ٹھیک کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا کرتا ، دوسری طرف حقیقت یہ ہے جو قومیں اپنی کوتاہیوں یا پھر غلطیوںسے سبق سیکھا کرتی ہیں وہ مثالی انداز میں آگے بڑھتی ہیں ۔ بطور قوم ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ مملکت خداداد پاکستان میں ڈنگ ٹپاو پالیساں ہی جاری وساری رہیں گی ، یا پھر یوں کہ ہم دائروں میں ہی سفر کرتے رہیں گے ، یقینا مایوسی کفر ہے ، یوں بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا ، ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کسی بھی شبعے میں بہتری نہیںہورہی ، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گردوپیش میں اکثر وبیشتر تبدیلی کا عمل یوں جاری رہتا ہے کہ خود ہمیں کانوں کان اس کی خبر نہیں ہوتی ، سچ ہے کہ آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ، ہر ملک نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہا ہے ، عالمی سطح پر انسانی جان کی حرمت سے لے کر محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرنے کا ایسا تصور ابھرا چکا جو ترقی پذیر ملک کے ہر باسی کا خواب ہے، اس ضمن میں جمہوری حکومتیں زیادہ دباو میں ہیں ، ایک طرف انھیں اپنے شہریوں کو اظہار خیال کی آزادی جیسی نعمت سے محروم نہیںکرنا تو دوسری طرف محدود وسائل کے باوجود اپنے شہریوں کی مشکلات میں کسی نہ کسی حد تک کمی لانی ہے ، اس پس منظر میں مری کا واقعہ یوں حیران کن نہیں کہ کم یا زیادہ کے فرق کے ساتھ ہمارے کئی شبعے مثالی کارکردگی سے محروم ہیں، مثلا آئے روز ہونے والے ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کے نقصان کے باوجود اب تک ایسے اقدمات نہیں اٹھائے گے جو پاکستانیوں کی زندگی کو محفوظ بنانے میںمعاون بن سکیں ، ہمیں نہیں بھولنا چاہے کہ دور دراز کے علاقے تو ایک طرف ہمارے بڑے شہروں میں بھی موٹرسائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کے قانون پر عمل درآمد ممکن نہیں بنایا جاسکا ، جعلی ادویات اور جعلی ڈاکڑوں کا معاملہ بھی بدستور چیلنج ہے ، قدرتی آفات ہی کو لے لیں ، آٹھ اکتوبر2005 کے زلزلہ کے بعد ارباب اختیار نے ایک ادارہ این ڈی ایم اے بنایا جس کی اولین زمہ داری قدرتی آفات یا ہنگامی صورت حال میں شہریوں کی جان ومال کو بچانے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھی مگر سوال یہ ہے کہ مری حادثہ میں این ڈی ایم اے کی کیا پرفارمنس رہی ، بظاہر جہاں ایک طرف وسائل کی کمی ہے تو دوسری طرف وہ پختہ عزم بھی ناپید ہے جو درپیش چیلجنز سے کامیابی کے لیے نبرد آزما ہونے کے لیے لازم وملزوم ہے ، قومی مسائل پر منیر نیازی کا شعر پوری طرح صادق آتا ہے
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
وطن عزیز کا معاملہ کچھ یوں ہوچکا کہ ہر گزرتے دن کساتھ مسائل حل کرنے کے لیے عوامی دباو میں اضافہ ہورہا ہے ۔ادھر وسائل کی کمی سے بھی اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں، یعنی ایک طرف عوامی شعور میں بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب ارباب اختیار روایتی ہتھکھنڈوںسے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ، ہمیں تاریخ کا یہ سبق کسی طور پر فراموش نہیںکرنا چاہے کہ طاقتور طبقہ کبھی باآسانی اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہوا کرتا، مثلا مغرب میں بادشاہت اور کلیسا نے خود کو بچانے کے لیے کیا کیا مظالم ڈھائے یہ تاریخ کی کتابوں میں باآسانی تلاش کیے جاسکتے ہیں ۔ ساحر لدھانیوی نے خوب کہا تھا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
بطور قوم ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ عوام کو ان کا حق کسی طور پر پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیاجائے گا ، اس ضمن میں پرامن جمہوری جدوجہد جاری وساری رکھے بغیر بات نہیں بننے والی ، اس سچ کو دل وجان سے تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا کی کسی بھی حقیقی جمہوری ریاست میں عوام کی جان ومال ہی مقدم سمجھی جاتی ہے ، مہذب ریاست کا ہر قانون کو صرف ایک کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کہ وہ کب اور کیسے زیادہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ، بلاشبہ اس کو اصول کو بنیاد بنا کر زمہ داروں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ہم رائج قوانین میں عوامی فلاح وبہبود کے پہلو کو کب اور کیسے نمایاں کرسکتے ہیں ، سماجی ارتقاء کے ماہرین کا خیال ہے کہ کائنات کی ہر شے کی طرح معاشرے میں بھی تبدیلی کا عمل کسی طور پر رکا نہیں کرتا بلکہ آگے بڑھتا رہتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے باشعور طبقہ میں پائی جانے والی بیزاری دراصل ایسی خواہش کا اظہار ہے جو رائج قوائد وضوابط میں عوام دوستی کے پہلو کو بتدریج نمایاںکردے ، ماضی کے واقعات گواہ ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں کسی انقلاب کی امید رکھنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں چنانچہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ اصلاح احوال کے لیے پرامن اور مسلسل جدوجہد کو یوں جاری وساری رکھا جائے کہ پاکستان میں خواص سے کہیں بڑھ کر عام آدمی کے مفادات کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے ۔