کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) کوئٹہ میں قومی ڈائیلاگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے قومی مسائل کے حل کیلئے مل جل کر نئے عزم کیساتھ آگے بڑھنے پر زور دیا۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چیزوں کے ریٹ بڑھانے کا کہہ رہا ہے نہیں بڑھائیں گے توقسط نہیں ملے گی۔ ایکسپورٹ بڑھانے، امپورٹ کم کرنے کے علاوہ معیشت کی بحالی کا کوئی طریقہ نہیں معیشت بحالی کیلئے صنعتی و زرعی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں میں اہلیت کا فقدان ہے ہمیں پرائیوٹائزیشن کے قانون کو آسان کرنا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران خان 15 ارب ڈالر خسارہ چھوڑ کر گئے ہم ایک ملک سے قرض پکڑ کر دوسرے کو دے رہے ہیں مطلب ٹوپی گھما رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک بہترین ملک ہے لیکن زیادہ تر پاکستانیوں کیلئے مفید نہیں رہا ہمیں اب قرضوں کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ملک میں نئے سوشل کنٹریکٹ پر بات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے غیر معمولی حالات کا مقابلہ غیر معمولی عمل سے کرنا پڑے گا۔ ملکی معیشت کی بدحالی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ہم سب نے حکومتیں کیں لیکن مسائل حل نہیں کر سکے۔ ہم سب کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ سیاست دشمنی میں تبدیل ہو جائے تو عوام کے مسائل رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ معیشت کی بدحالی اور سیاست کی ناکامی انتہا کو پہنچ چکی، ملک میں تعلیم، صحت، روزگار کے معاملات کو بہتر کرنا ہوگا۔ انصاف کا نظام بھی مفلوج ہو چکا ہے۔ بروقت انصاف نہ ملنے پر لوگ قانون کا احترام نہیں کریں گے۔ ایٹمی قوت بن کر بھی سکولوں، ہسپتالوں کا میعار بہتر نہ کر سکے، متحد ہو کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچستان میں گیس، بجلی کے مسائل سے گوادر کے مسائل پر بات ہوئی۔ بلوچستان کے مسائل کا حل بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہے۔ مسائل کا حل آئین میں ہے، نگران کی بات کرنے والا موجود ہونا چاہئے۔ نواب زادہ لشکری رئیسانی نے کہا ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ بھی ایک حد تک مفلوج ہے اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈائیلاگ کی ایک سیریز شروع کریں تاکہ مسائل حل ہوں اندھیرے میں جماعت بنتی ہے پھر ہمارے وسائل بیچے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ۔ ایک نئے تصور کے ساتھ اٹھیں تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ 1948ء کے بعد شروع ہونے والی شورش آج تک جاری ہے یہاں غربت ہے، اسلام آباد والے اس شورش کو محسوس کرنے پر تیار نہیں۔ بلوچستان کے 9 ہزار بچے پولیٹیکل ایکٹویٹ غائب ہیں ہم لوگ جو وفاق کی بات کرتے ہیں مشکل میں ہیں۔