جماعت اسلامی کراچی کے دروازے سے ایک بار پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہونے کی تیاری میں ہے۔ پہلے بھی جماعت کراچی میں اپنے میئر کے ذریعے خدمت کا ایک اچھا ریکارڈ رکھتی ہے اور اب جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بلاشہ گزشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں قاضی حسین احمد سٹائل کی سیاست شروع کر رکھی تھی اور اس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں۔جماعت کو پی پی پی کے ساتھ ماضی میں شرکت اقتدار کا کوئی بڑا تجربہ تو نہیں ہے اور پھر پیپلز پارٹی بھی اب بھٹو یا بے نظیر والی نہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ پی پی پی یا پی ٹی آئی کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دیکھا جائے تو اپنے بانی قائد مولانا مودودی کی راہنمائی میں یوم تاسیس 26 اگست1941ءسے لے کر آج تک جماعت کئی امتحانوں سے گزری ہے۔ ان امتحانوں کی کشمکش میں پہلے دن کے74 ساتھیوں میں سے ڈاکٹر اسرار احمد جیسے بعض دانشوروں نے الگ ہو کر اپنی اپنی جماعتیں بھی بنا لیں لیکن بحیثیت مجموعی جماعت کا ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار رہا ہے ۔ اس کا سبب اس کا پارٹی کے اندر جمہوری مزاج اور اس کے بانی کی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کی تربیت کا ایک مسلسل اور زندہ تسلسل ہے ۔ پاکستان کی کوئی دوسری دینی یا سیاسی جماعت اس حوالے سے جماعت اسلامی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔جماعت نے اقتدار کے شراکتی مزے بھی لئے لیکن سچ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے پاکستانی سیاست کے بدبودار سسٹم کی وجہ سے اور جزوی طور پر اپنی موسم کی طرح بدلتی بعض پالیسیوں کی وجہ سے دوسروں کو تو بہت کچھ دیا ہے لیکن اس کے اپنے حصے میں بہت کم آیا ہے ۔جماعت کی قیادت نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت اور اس سے پہلے 1956ءکے آئین کو بچانے کے ساتھ ساتھ بعد کے دنوں میں پاکستان کی حفاظت کے حوالے سے عسکری قیادت سے ہم آواز ہونے جیسے بہت سے دلیرانہ فیصلے بھی کئے لیکن کئی مواقع پر مصلحت کوشی کا مظاہرہ بھی کیا گیا جس کے اثرات دیر تک محسوس کئے گئے۔جماعت اسلامی نے انتخابی سیاست سے بھی انفرادی طور پر کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا البتہ اتحادیوں کی سیاست سے اسے کچھ کامیابیاں بھی ملیں ۔ اگر ماضی پر ایک نظر دوڑائی جائے تو جماعت کا تمام بڑی پارٹیوں سے عشق بھی رہا ہے اور ڈانگ سوٹا بھی ۔1970ءکے عام انتخابات میں جماعت کوقومی اسمبلی کی چار اور تین صوبو ں پنجاب سندھ اور موجودہ خیبر پی کے سے ایک ایک سیٹ ملی تھی ۔1977ءمیں پی این اے یعنی پاکستان نیشنل الائنس بنا جسے36نشستوں پر کامیابی ملی ۔1990ءمیں پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے جماعت کو پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ مل سکی 1993ءمیں پاکستان اسلامک فرنٹ کا حصہ بن کر جماعت نے قومی اسمبلی کی تین اور پنجاب اسمبلی سے 2 اورخیبر پختون سے چار صوبائی نشستیں حاصل کیں ۔1997ءمیں جماعت نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔ جنرل مشرف کے دور میں2002ءکے عام انتخابات میں جماعت نے دوسری دینی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑا اور حیران کن انداز میں قومی اسمبلی میں اتحاد کی 45 نشستیں لیں اور خیبر پی کے میں اپنی حکومت بنا لی ۔2008ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا 2013ءکے انتخابات میں جماعت نے اکیلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی تین پنجاب اسمبلی کی ایک اور خیبر پختون کی 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔2018ءکے انتخابات میں جماعت نے ایک بار پھر ایم ایم اے کا پلیٹ فارم استعمال کیا لیکن پہلے کی طرح کامیابی نہیں مل سکی اور ضلع دیر جوہمیشہ جماعت کا گڑھ رہا ہے اور لوئردیر سے تو خود موجودہ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کا تعلق ہے وہ بھی بہت حد تک پی ٹی آئی کے پاس چلا گیا اور جماعت کے حصے میں صر ف ایک نشست آئی ۔ اب دیکھنا ہے کہ2023ءمیں جماعت ملکی سطح پرکیا حاصل کر پاتی ہے۔دیکھا جائے تو جماعت نے پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں کے ساتھ کام کیا ہے ۔البتہ ایسٹیبشمنٹ سے صرف عشق کیا یا پھر خاموشی اختیار کی ۔ بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک جسے بعد میں تحریک نظام مصطفی کا نام بھی دیا گیا میں جماعت پیش پیش تھی اورمذاکراتی ٹیم میں جے یو آئی کے مولانامفتی محمود کے ساتھ جماعت کے مولانا غفور احمد شامل تھے پھر بھٹو مرحوم کا تختہ الٹ کر ضیا الحق نے حکومت بنائی تو حکومت میں جماعت کے تین چار وزیر بھی شامل ہو گئے ۔ قاضی حسین احمد جماعت کے امیر تھے تو جماعت فرنٹ فٹ پر سیاست کرتی رہی ۔ ملی یکجہتی کونسل جیسے اہم ترین فورم سے ملت اسلامیہ کے اتحاد کی کوششوں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا ۔24 جون1996ءکا بے نظیر حکومت کےخلاف جماعت کا دھرنا جس میں جماعت کے تین کارکن شہید بھی ہوئے اور پھر دو تین ماہ بعد قاضی صاحب کا سینٹ کی سیٹ سے مستعفی ہو کر پی پی پی کی حکومت کےخلاف تحریک تیز کرنااور اکتوبر کے آخر میں ایک بار پھر دھرنا تاریخ کا حصہ ہے جس کے بہاﺅ میں حالات ایسے پلٹے کہ چند دن کے بعد بے نظیر کے منہ بولے بھائی اور اپنی پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑ کر بے نظیر حکومت ختم کر دی یہ بالواسطہ نواز شریف کی مدد تھی لیکن پھر وہ وقت بھی آ یا جب جماعت نے نواز شریف حکومت کےخلاف احتساب کارواں بھی چلایا اور 1 فروری 1999ءکو بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی لاہور آمد پر مظاہروں کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور جماعت کی قیادت سمیت ان گنت کارکن لہو میں لت پت دیکھے گئے ۔2013ءکے انتخابات کے بعد خیبر پی کے میں جماعت کا تحریک انصاف سے بھی اتحادی حکومت کے حوالے سے عشق رہا جوبعد میںختم ہو گیا ۔ اب جماعت اسلامی کا بظاہر جھکاﺅ اس پی پی پی کی طرف لگ رہا ہے جسے انتخابی مہم کے دوران کراچی کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتی رہی ہے توکیاکراچی کی میئر شپ کے حوالے سے یہ اچانک یا حادثاتی عشق کامیاب ہو پائے گا اور کیا عام انتخابات کے بعدکی صورتحال کو ان نتائج کی روشنی میں جانچا جا سکتا ہے جبکہ گرج چمک کے ساتھ اکھٹے ہو جانےوالے ایم کیوایم کے بادل بھی اچانک غائب ہوئے ہیںیا کسی نئے اشارے کے منتظر ہیں۔