خدا معلوم ،بچپن سے ہماری آنکھوں اور کانوں کو کس مصلحت کے تحت ”جنوبی پنجاب کی محرومی“ کے الفاظ سے اس” تشدد“ سے متعارف کراےا گیا کہ ہمارے ذہنوں میں طبی اور تعلیمی سہولیات سے محروم، مواصلاتی نظام سے نا آشنا، ہاتھوں میں کاسہ اٹھائے کھڑے عوام کی تصویر جامد ہو کے رہ گئی۔ تاہم جب پچھلے پچیس سالوں میں مختلف نجی و سرکا ری مصروفیات کی بابت لاہور سے ملتان، بہاولپور ، ڈیرہ غازی خان اور دیگر مقامات پر جانے کا اتّفاق ہوا تو نگاہیں اکثر اس محرومی کو تلاش کرنے کی کو شش کرتی رہیں جس کو سنتے اور پڑھتے ہم جوان ہوئے تھے۔ جب مشاہدہ کیا توڈی جی خان سے بہاولپور کی دوسری جانب تک یک رویہ چم چم کرتی سڑکیں، میڈیکل کالجز، زرعی، انجینئرنگ اوردیگر سائنس و آرٹس کا لجز اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا پایا۔ ان شاہراہوں اور اداروں کا موازنہ جب وسطی پنجاب کی شاہراہوں اور اداروں سے کیا تو پھر جا کے کہیں محرومی کی سمجھ آئی۔
جنوبی پنجاب کے بھائیوں کو اگر محرومی کا مفہوم سمجھنا ہو یا محرومی کو اپنی آنکھوں سے ”مجسم“ دیکھنا ہو تو کبھی پنڈی بھٹیاں موٹر وے انٹر چینج سے اتر کر براستہ چنیوٹ ملتان یا بہاولپور جائیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ گھر پہنچ کر وہ شدت سے گنگنانے پر مجبور ہوجا ئینگے کہ اب ” مالک نے اگر بھیجا بھی تو راہوں میں کھو جائیں گے“۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس سفر کے بعد اپنے چاہنے والوں کو یہ وصیت کر جائیں کہ کبھی براستہ جھنگ، چنیوٹ اور پنڈی بھٹیاں، لاہور یا اسلام آباد جانے کا سو چنا بھی نہ۔ اسی طرح اگر کبھی پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد سے چنیوٹ تک کا صرف پچیس کلو میٹر پر محیط سفر اپنی ذاتی گاڑی میں دو گھنٹے سے پہلے طے کر لیں تو محرومی کے جملہ نصاب سے بہرہ ور ہوں۔ ان دو شاہراہوں سے قطع نظر وسطی پنجاب کی جملہ شاہراہو ں میں سے کسی ایک کو بھی جنوبی پنجاب کے جیسی نہیں پائیں گے، مثلاً فیصل آبا د سے اوکاڑہ، سمندری ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ سے شورکوٹ، سرگودھا ، بھکر،لیہ ، سرگودھا سے خوشاب، میانوالی، ساہیوال سے پاکپتن، پاکپتن سے دیپال پور، اوکاڑہ، قصور وغیرہ، یہ سب شاہراہیں اپنی محرومی سے بڑھ کر وسطی پنجاب کے سیاسی نمائندوں کی ترجیحات پر متام کرتی ہیں ۔
شاہراہوں کی بات چھوڑئیے ، ذرا جھنگ شہر کے شمالی حصہ سے جنوبی حصہ کی طرف منہ ڈھانپے اور شلوار پنڈلیوں سے اوپر اُٹھائے بنا پیدل چل کر دکھائیے۔ کوئی ایک شہر تو جنوبی پنجاب کا ایسا ہو جسے ہم جھنگ جتنا استحصال رسیدہ اور ترقیاتی توجہ سے محروم قرار دے سکیں۔ یہ اذیت ناکی صرف جھنگ تک محدود نہیں، بلکہ فیصل آباد سمیت وسطی پنجاب کے بیشتر ضلعی ہیڈ کواٹرز کا یہ مشترکہ المیہ ہے۔
جنوبی پنجاب کے دوست اپنی ہر ضرورت اور سہولت کا موازنہ صرف لاہور سے کرتے ہیں ، یہاں تک کہ راجن پور اور مظفر گڑھ کے دیہاتوں کے مکین بھی ایسے ہی موازنے کو قرینِ عقل سمجھتے ہیں۔ آخر سرگودھا سے لیکر پاکپتن تک اورشیخوپورہ، قصور سے لیکر شورکوٹ تک با قی کا وسطی پنجاب اُن کی نظروں سے اوجھل کیوں رہتا ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پنجاب کے جس حصہ سے ایک صدرِ مملکت، تین وزرائے اعظم، پنجاب کے دس گورنر ،سات وزرائے اعلیٰ، ان گنت سپیکرز اور وزراءمسندِ اقتدار پر جلوہ فگن ہوئے ، جہاں لاہو ر کو چھوڑ کرصو بے کے باقی تمام اضلاع سے بہتر سہولیات و آسائشاتِ زندگی دستیاب ہیں ، وہ مسلسل اپنی ” محرومی“ کا نوحہ کہتے آ رہے ہیں۔جب آپ دستیابی سہولیات کا معیار ہی لاہور کو مختص کر لیں گے تو بلا شبہ آپ کو ہر طرف اپنی محرومی ہی محرومی نظر آئے گی۔
وسطی پنجاب کے لوگ یا تو گونگے بہرے ہیں، یا پھر بہت صابر یا انتہائی بے حس ہیں کہ انہیں اپنی محرومی کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ چنیوٹ میں ملک کی سب سے بڑی کاروباری برادری رہتی ہے جوپاکستان کی معاشی استقامت میں مسلسل اپنا کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ جو پورے عالم میں خود کو چنیوٹی کے طور پر متعارف کرانا قابلِ اعزاز اور لازم سمجھتی ہے۔ جس نے اس صدی عیسوی کی پہلی دہائی میں چنیوٹ کو فیصل آباد کی تحصیل بنوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، وہ فیصل آباد اور چنیوٹ کے درمیان آج تک صرف پچیس کلومیٹر کی دو رویہ مضبوط سڑک نہیں بنوا سکی ۔ کاش جنوبی پنجاب، لاہوراور گجرات کے خانوادوں سے نکل کر وسطی پنجاب کے باقی کے اضلاع میں سے بھی کبھی کوئی وزیرِ اعظم بنتا، کوئی صدر، گورنر ےا وزیرِ اعلیٰ کی مسند پرجلوہ افروز ہوتاتو شاید وسطی پنجاب کے اضلاع کی قسمت کے دن بھی پھرجاتے، کےوں کہ یہاں ہربرسرِ اقتدار خواہ وہ لاہور سے ہو، ڈی جی خان سے یا گجرات سے ہو،یہ سمجھتا ہے کہ صرف اس کا علاقہ ہی اس کی توجہ کا حقدار ہے،اورباقی بھلے بھاڑ میں جائیں۔
پنجاب کے تمام ترقیاتی پراجیکٹس میں سے پیسہ نکال نکال کر کبھی لاہور میں لگایا جاتا رہا، کبھی ڈی جی خان میں تو کبھی گجرات اس کا ”جائز حقدار“ ٹھہرا ۔ صبر آزما محرومی شاید وسطی پنجاب کے باقی کے اضلاع کا مقدر ہے۔ ان اضلاع کے سوشل میڈیا پرمخالفین سے بر سرپیکار جوشیلے ”سیاسی مجاہدین“ اور ”دانشوروں“ کو دہائیوں پر محیط اپنی ”مستحکم محرومی“ کی بابت اپنے ”سیاسی مرشدین“ سے سوال کرنے یا ان کے ضمیر وںکو جھنجھوڑنے میں بہت شرم آتی ہے۔ اس لیے میری جنوبی پنجاب کے دوستوں سے درخواست ہے کہ اب جب بھی جنوبی پنجاب کے ”مسلسل محروم“ علاقے سے کوئی صدر، وزیرِاعظم، گورنر ےا وزیرِ اعلیٰ بنے تو اسے ضرورکہیے گا کہ وسطی پنجاب کا بھی خیال رکھے ، کیونکہ یہ بھی تو اسی ملک کا حصہ ہے۔ویسے بھی سنا ہے کہ لا وارثوں کی داد رسی ثوابِ دارین کا باعث بنتی ہے۔