گیان و دھیان"

شاذ ملک
روح تو گمان کے سمندر کے کنارے پر چپ کی مچان پر دھیان کا آسن لگا کر گیان کی سعی میں بیٹھی رہنا چاہتی ہے‘ مگر یہ دل کی دنیا میں آرزوؤں کے شہر سے اٹھتا شور یہ خواہشوں کی پکار یہ کھونے پانے اور ملنے بچھڑنے کی آہ و بکاہ کہیں پر من و تو کی پکار تو کہیں پر چاہ کی راہ پر ہاں اور ناں کی تکرار۔ اسکی بصارتیں اندھیروں سے جان چھڑا کر ذکر کے نورانی آنچل کو اوڑھ کر جذب کی سرسراتی ہواؤں اڑنے کی تمنائی مگر اسکی سماعتوں میں شور کے تانبے جیسے سکوں کی کھنکھناہٹ اسکی سماعتوں میں سیسہ ڈالکر جھنجھلانے اور کرلانے پر مجبور کرتی ہے۔۔ کیونکہ وہ تو خاموش پرسکون یاد ربی میں مست و مگن لمحوں کی شیدائی۔ عجز کے جائے نماز پر ذوق و شوق سے عشق کی صلوات پڑھنے کی تمنائی۔۔ جو انگلیوں کی تسبیح میں ذکر پر شکر پر مست الست رہنا چاہتی ہے۔ جو بظاہر تو تن کے پنجرے میں مقید ہے۔جو اس کے لئیے ایک قفس ہے۔ مگر پھر بھی لطیف ہے۔ اور جب ذکر کے نور کی سرسراتی نورانی ہوا لہروں کی طرح اسکے وجود کو اڑانے لگتی ہے تو پھر وہ ٹھوس زمین سے لطیف آسمان کی وسعتوں میں جا پہنچتی ہے۔شور سے بہت پرے اک ایسی دنیا جسکی وہ باسی رہی ہے تن کے قفس میں قید ہونے سے پہلے۔دراصل روح کی لطافت و لافانیت کا رابطہ تو ازل سے روحانیت سے ہے مگر وہ یہ شور جو ظاہر بھی ہے اور اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ اسے ایکمرکز پر یکجا نہیں ہونے دیتا۔۔ گمان کے کنارے پر رہ کر گیان کے سمندر میں اترنے نہیں دیتا۔۔"مگر یہ روح گیان کے ساحل پر بکھری ان گنت احساسات و خیالات کی سیپیاں اکھٹی کرتی رہتی ہے پھر ان کو اپنے وجدان میں پرو کر دھیان کا آسن لگا کر شکر کے مراقبے میں مست و مگن ہو جاتی ہے اور پھراس مقام پر شور بھی خاموش ہو جاتا ہے۔چپ کی فضاؤں میں گم ہو جاتا ہے۔ذکر کی ہوائیں اسے اڑا کر گیان کے سمندر میں اتار دیتی ہیں اور پھر سفر دوبارہ شروع ہوتا ہے عشق کا ایسا سفر جسکا کوئی انت نہیں
کیونکہ اس تمام تر حشر سامانیوں کے بعد روح اور گیان کی دھول پی کر دل حالت وجد آکر جب رقص کرتا ہے تو دل کے پیروں میں بندھے حسرتوں کے گھنگرو تھرکتے سمے جو تال چھیڑتے ہیں اس تال پر عشق کے مدھم سر جنم پاکر روح وجسم کو دل سے جوڑ کر دماغ میں ایک عکس بنادیتے ہیں اور جب اس عکس کا وجود اس جسم کے سامنے آتا ہے تو پھر محبت عشق کا کھیل شروع ہوتا ہے کہیی لیلی کہیں سسی کہیں مہینوال کہیں قیس ماروی پنوں شیریں فرہاد وجود پاتے ہیں یہ عشق کے سفر میں بچھی اس راہ کے سنگ میل ہیں مگر عشق کی منزل نہ کسی کو ملی اور نہ مل پایے گی۔
کیونکہ بحر عشق بے انت ہے  وقت کی طرح۔

ای پیپر دی نیشن