اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اپنے اصلی حکمرانوں کی عطا کردہ جمہوریت میں ابھی اپنی من پسند کتابیں پڑھنے کی آزادی میسر ہے۔ سو ہم اس آزادی کا خوب فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ 2024عیسوی میں شائع ہونے والی معروف بیوروکریٹ شکیل درانی کی خود نوشت ’’فرنٹیئر سٹیشنز‘‘ کالم نگار کے ہاتھوں میں ہے۔ ساڑھے چار سو صفحوں کی یہ کتاب ایک مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔ لیکن اسے محض ایک مرتبہ ہی پڑھنا کافی و شافی نہیں۔ واقعات اور مشاہدات کے اعتبار سے یہ کتاب قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ ،مختار مسعود کی آواز دوست ، سفر نصیب ، لوح ایام اور مسعود مفتی کی دو مینار کے پایہ کی کتاب ہے۔ شکیل درانی 1971عیسوی میں ہونے والے اعلی سروس کیلئے مقابلے کے امتحان میں اول رہے۔ پھر اپنی سروس کے دوران اسسٹنٹ کمشنر سے چیف سکریٹری ، پھر چیئرمین واپڈا اور ریلوے تک کا سفر کامیابی سے طے کیا۔ انہوں نے حافظہ کمال کا پایا ہے۔ اتنے واقعات مشاہدات مقامات اور افراد کے نام یاد رکھنا معمولی بات نہیں۔ شکیل درانی نے اپنی خود نوشت انگریزی زبان میں لکھی ہے۔ ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر بھی ایک مختصر سے عرصہ میں اس کتاب کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ شاید اسی سے حوصلہ پا کر اس کتاب کا اردو ایڈیشن شائع کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ انگریزی زبان کے قارئین کو ہمارے حکمران اپنی’ ’ بے تکلفانہ یار باشی‘‘ کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جو کچھ انگریزی اخباروں میں چھپ جاتا ہے وہ اردو اخباروں کے نصیب میں نہیں آتا۔ محمد حنیف نے انگریزی زبان میں A case of exploading mangoesکے نام سے ایک ناول لکھا۔ یہ ناول جنرل ضیاء الحق کی موت کے حادثہ کے بارے تھا۔ نازک مزاج شاہاں نے انگریزی زبان میں ناول برداشت کر لیا۔ لیکن چند برس بعد جب یہی ناول اردو ترجمہ میں'' پھٹے آموں کا کیس'' کے نام سے شائع ہوا تو ان سے برداشت نہ ہوا۔ پھر نادیدہ ملکی طاقتوں نے اس کتاب کے تمام نسخے مارکیٹ اور پبلشر کے گودام سے اٹھوا لیے۔ شکیل درانی نے اپنی خود نوشت میںکمال ہنر مندی اور سلیقے سے بہت سے خوفناک انکشافات کیے ہیں۔ اس طرح وہ قابل دست اندازی سرکار نہیں رہے۔ جیسے انہوں نے ایک وزیر اعظم پاکستان اور امیر قطر کے درمیان ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے امیر سے درخواست کی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ محل میں موجود ہر پاکستانی شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا جب امیر قطر نے وزیر اعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ وہ ایسا کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کے ہاں کوئی کک بیک اور کمیشن نہیں مانگے گا۔ شکیل درانی نے یہاں وزیر اعظم کا نام لکھنے سے گریز کیا ہے۔ کالم پڑھنے والا بے دھڑک اپنی نا پسندیدہ سیاسی جماعت کا نام لے سکتاہے۔ بے شک ہم سبھی اپنے اپنے چوروں کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔ بعض معاملات میں شکیل درانی کا قلم کالم نگار ایاز امیر کا سا بے باک پایا گیا ہے۔ پھر ایک پٹھان کی داستان میں لیڈی ڈیانا ، ہالی ووڈ کی مشہور ہیروئن ایوا گارڈنر اور مدھو بالا کا ذکر بہت خوشگوار محسوس ہوا وگرنہ ایک پٹھان۔
ان دو واقعات میں شکیل درانی کی پوری شخصیت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ پہلا واقعہ قومی اسمبلی کی ریلوے کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا ہے۔ کالم نگار رئوف کلاسرا لکھتے ہیں کہ میں وہاں اجلاس کی رپورٹنگ کیلئے موجود تھا۔ جنرل مشرف کے ابتدائی دو سالوں میں لاکھوں ڈالروں کے قرضے سے چین سے ناقص ریلوے انجن اور بوگیوں کی خرید کا حساس معاملہ زیر بحث تھا۔ ذمہ داروں کے تعین کے لیے انکوائری چل رہی تھی۔ کوئی بھی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کو تیار نہیں تھا۔ سبھی شکیل درانی چیئرمین ریلوے پر چڑھائی کیے ہوئے تھے کہ وہ ذمہ دار افسروں کے نام بتائے۔ لیکن وہ طریقے سلیقے سے کوئی نام بتائے بغیر معاملے کو دبانے سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ادھر ممبران کمیٹی بضد کہ پوری وضاحت اور پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کا اصرار بڑھا تو شکیل درانی بولے کہ میں نام بتائے دیتاہوں آپ پھر کاروائی کر لیں۔ ممبران بولے جی بتائیں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ اس پر شکیل درانی نے انہیں تین سابق ٹاپ جرنیلوں کے نام بتائے جو جنرل مشرف کے انتہائی قریبی تھے ان ذمہ داران کے نام سن کر سبھی ممبران اور چیئرمین کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے۔ شکیل درانی لکھتے ہیں۔ خیبر ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر میری تعیناتی کو ابھی بمشکل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ میرا ایک ماتحت اپنے چہرے پر شرمندگی سے منمناتا ہوا مجھ سے پوچھنے لگا کہ اجازت ناموں میں میرا حصہ کہاں جمع کروایا جائے۔ اس نے مجھے بتایا کہ پولیٹیکل انتظامیہ کے تمام اہلکار ،خیبر رائفلز ، خاصہ دار اور چار خفیہ اداروں کے اہلکارروزانہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ میں نے اس لوٹ مار کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ میرا حصہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہونگے۔اپنی خود نوشت میں شکیل درانی نے چند لفظوں میں ہمارا پورا عسکری مزاج بیان کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔’’ زیادہ تر پاکستانی جرنیلوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں غیر فوجی کامیابیوں کی بنا پر یاد رکھا جائے۔ بہبودی منصوبے انہیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ جنہیں شاید یہ میدان جنگ میں فتوحات کے اعزازی تختہ پر اپنا نام نہ لکھوا سکنے کا ایک عذر سمجھتے ہیں‘‘۔ 12مئی 2007عیسوی کا دن ملک کی تاریک تاریخ میں تاریک ترین دنوں میںسے ایک شمار کیا جا سکتاہے۔ اس دن کراچی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جلوس کو سڑکوں پر نکلنے نہ دیا گیا۔ اس دن زمینی خداوں نے بتایا کہ وہ اقتدار کے لیے کہاں تک جا سکتے ہیں۔ سڑکیں انسانی خون سے سرخ ہو گئیں۔ شکیل درانی ان دنوں چیف سکریٹری صوبہ سندھ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری طرف سے مجوزہ کاروائی سے احترازکرنے کے تمام کوششوں کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی مرضی برتی گئی۔ لندن میں مقیم ساقی فاروقی نے ایک مرتبہ آسمانی خدا سے کہا تھا۔
ہم وہ عاجز ہیں کہ ہر روز دعا مانگتے ہیں۔
اور اک تم کہ خدائی نہیں دیتے ہم کو
خدا آسمانی ہو یا زمینی اپنی خدائی سے دستبردار کب ہوا ہے؟