پوچھتے ہو کیسا ہے لاہور؟

بچپن سے لاہور آنا جانا لگا ہوا ہے ۔آج سے تیس پینتیس سال پہلے تک اس شہر کی فضائیں نکھری نکھری ہوا کرتی تھیں۔ شہر کی سڑکوں کے ساتھ درختوں پر محبت کے گیت گانے والی بلبلیں،سریلی کوئل، چہچہاتی چڑیاں اوردوسرے پرندے ادھر سے اُدھر اُڑتے نظر آیا کرتے تھے۔ رنگ برنگے پھولوں کے دلفریب نظارے پیش کرنے والے باغات دور و نزدیک سے لاہور آنے والوں کا دل لبھایا کرتے تھے۔اندرون لاہور کی گلیاں چاہے جتنی بھی تنگ تھیں لیکن اندرون شہر رہنے والے کھلے دل و دماغ والے زندہ دل لوگ تھے۔تاریخی عمارتوں کی سیر کو جانے والے لاہور کے ماضی کو یاد کرتے ۔منٹو پارک کے وسیع احاطے میں لاہورئیے لڑکے سارا سارا دن کرکٹ کھیلتے اور شام ہوتے مینار پاکستان کے سامنے ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ کے خوب ہلا گلا کرتے۔مال روڈ لاہور کا رومانس ہوا کرتا تھا۔پاک ٹی ہاوس کی شامیں شاعروں ،ادیبوں اور صحافیوں کے دم سے آباد تھیں۔لاہور کے چائے خانوں پر مکالمے ہوا کرتے تھے۔راوی کا پانی صاف ہوا کرتا تھا اور کشتی کی سیر کرتے دریا کے دوسری طرف اُتر کے کامران کی بارہ دری میں کچھ وقت بتایا کرتے۔شہر میں معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود تھی۔اُن ہی دنوں لاہور کی محبت میں لکھا تھا کہ
’پوچھتے ہو کیسا ہے لاہور؟
پہلی محبت جیسا ہے لاہور
کبھی لاہور جانا ہوتا تو واپسی پر دل و دماغ پہ عجیب سے سرور چھایا ہوتا تھا۔لیکن اب کہ لاہور سے ہو کے آیا ہوں تو شہر کی آلودہ فضانے ذہن کوپریشان کر کے رکھا ہوا ہے ۔ پتہ نہیں لاہور کو کس کی نظر لگ گئی ہے ۔ جانے کیا ہوا؟کس کو الزام دیں کہ لاہور آج دنیا کے گندے ترین شہرو ںمیں پہلے نمبر پر کیوںہے۔ ترقیاتی کام ضروری تھے لیکن بہت کچھ بچ سکتا تھا ۔ انتظامیہ،سیاست دان اور شہری مست رہے اور لاہور کے لیے آکسیجن مہیا کرنے والی سونا اُگلتی زمینوں پر قبضے ہونے لگے۔کھیت کھلیاں باغات کا قتل عام کرتے ہوئے ہاوسنگ سوسائٹیز نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے اور بنا سوچے سمجھے شہر کی ہر دوسری سڑک کو اُکھاڑا جانے لگا ۔راوی میں روزانہ سینکڑوں ٹن چیتھڑے پھینکے جانے لگے۔نئی سڑکیں بنانے کے لیے پہلے سے بنی سڑکو ںکو توڑا جانے لگا۔مٹی،دھوڑ اور دھواں لاہور کی فضاوں میں ہر طرف پھیلنے لگا ۔ محبت کے گیت گانے والوں پرندوں کی جگہ مردار کھانے والی ’گرجیں‘ لاہور کی فضاوں پر حکومت کرنے لگیں۔راوی اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو یہ شہر والوں کے لیے تحفے کی طرح ہوتا ۔لیکن ہمارے راوی کا برا حال ہے۔ شہر کے گٹرو ں کا گندہ پانی راوی میں ، بھینسوں کا گوبر راوی میں،صدقے کے گوشت کے نام چیتھڑے اور شاپر راوی میں اور پھر جھونپڑیوں کا ایک الگ شہر راوی میں آباد ہو چکا ہے جس کی حدود وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی جارہی ہیں۔راوی کی حالت دیکھ کے دل کو تکلیف ہوتی ہے ۔ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ ’’وگدا پانی پاک ہوندا اے‘‘ لیکن ہم نے اپنے پانیوں کو نہ صرف پلید کیا ہے بلکہ ان میں طرح طرح کے کیمکل پھینک کے اسے ذہر آلود بھی کررہے ہیں۔ پچھلے کئی عشروں کی غفلت نے اس تاریخی شہر کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے۔
میگا پراجیکٹ شروع کرنے والوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ باغوں اور پھولوں کا شہر بدبو اور تعفن کا مرکز بن رہا ہے ۔ سڑکوں اور انڈر پاسسز کی تیاری کے لیے درختوں اور پودوں کابے دریغ قتل عام کیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اصل لاہور فضائی آلودگی اور زمینی گندگی میں کہیں گم ہوتا چلا گیا ۔محبت کے گیت گانے والے پرندے کہیں اور چلے گئے آمروں،ظالموں اور غاصبوں کو للکارنے والے شاعروں،صحافیوں اور دانشوروں نے کلمہ حق کہنے کی بجائے نظریہ ضرورت کے تحت بیانیہ ترتیب دینا شروع کردیا۔
ویسے تو لاہوریئے بڑے صلح جو اور بھلے مانس لگتے ہیں لیکن اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے ماضی کے ہر عہد میں اپنی ثقافت، روایات،اقدار اور سیاسی شعور کا لوہا منوایا ہے، ہر دور میں یہ شہر علم والوں کا قدر شناس رہا ہے۔ ہر دور میں اس شہر نے طاقتوروں کو للکارہ ہے ہر دور میں اس شہر نے ایسے ہیرے پیدا کیے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ دنیا کے لوگوں کی راہنمائی کا فریضہ بخوبی ادا کر کے دکھایا ہے ۔ ہر دور میں شہر کے واسیوں نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ۔پنجاب لاہور ہے اور لاہور پنجاب ہے ۔لاہور جو فیصلہ کردے سارا پنجاب اس کی تائید کرتا ہے۔
پاکستا ن بننے سے پہلے قرارداد پاکستان کی منظوری لاہور کے تاریخی منٹو پارک میں ہوئی ۔بھٹو کو بھٹو بنانے والا لاہور ہے ۔پھرطویل ترین مارشل لا ء کے بعد اسی لاہور نے بھٹو کی بیٹی بے نظیر کو پاکستانی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی تو لاہور ہی تھا جس نے ایک شریف گھر کے شریف سے لڑکے کو راتوں رات ملک کا طاقتور اور مضبوط سیاسی راہنما بنا دیا ۔اب وقت ہے لاہورئیے جاگیں اور لاہور کو بچانے کے لیے آواز بلند کرے۔ آواز بلند کریں کہ حکمران ہر سال تعلیمی ادارے بند کرنے کے بجائے لاہور کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے میگا پراجیکٹ شروع کریں۔ آواز بلند کریں کہ گٹروں کا پانی راوی میں نہیں پھینکا جائے گا ۔آواز بلند کریں کہ بھینسوں اور جھونپڑیوں کو کہیں اور منتقل کیا جائے اور آواز بلند کریں کہ لاہور کی فضاوں کومردارخور گرجوں سے نجات دلاتے ہوئے محبت کے گیت گانے والی بلبلوں، کوئلوں ،چڑیوں اورفاختاوں کو خوش آمدید کہنے کی تیاری کی جائے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن