غزہ‘ تل ابیب (نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) غزہ کے رہائشی علاقوں میں اسرائیلی فوج نے شدید بمباری کی جس کے نتیجے میں مزید 165فلسطینی شہید ہوگئے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں نصر اور العمل ہسپتال کے قریب شدید بمباری کی گئی۔ رفح اور بریج کیمپ پر حملے میں مزید 5 فلسطینی شہید ہوگئے جس کے بعد شہداءکی مجموعی تعداد 25 ہزار تک پہنچ گئی۔ شمالی و جنوبی غزہ میں بمباری کی گئی۔ 22 لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ہیبرون‘ جنین اور مقبوضہ بیت المقدس میں چھاپے مار کر متعدد فلسطینی گرفتار کر لئے۔ تل ابیب میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے نیتن یاہو کو ہٹا کر نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی میں حکومتی ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو حکومت پر اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے الزامات عائد کر دئیے۔ متاثرہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے کہا نیتن یاہو حکومت نے7 اکتوبر کے روز ہمیں نظرانداز کیا اور اس کے بعد ہر روز ہمیں نظرانداز کر رہی ہے۔ جنوبی غزہ میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گیا۔ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے گاڑی پر ڈرون حملے میں حزب اﷲ کے 2 ارکان شہید ہو گئے۔ حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑے گا۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اسرائیل سے تعلقات کا واحد راستہ مسئلہ فلسطین کے حل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حماس کے قبضے سے یرغمالیوں کو آزاد نہ کروانے پر اسرائیلی کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے وزیراعظم آفس پر دھاوا بول دیا اور صورتحال تقریبا ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ اسرائیلی فوج میں غزہ جنگ کی حکمت عملی پر بھی شدید اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں 3 کمانڈروں نے کہا کہ حماس کو شکست بھی دیں اور یرغمالی زندہ بھی بچائیں، دونوں کام ایک ساتھ ممکن نہیں، یرغمالیوں کی تیز ترین واپسی کا راستہ سفارتی طریقہ کار ہے۔امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق غزہ میں فضائی اور زمینی آپریشن اور بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ اداروں نے تصدیق کی ہے کہ حماس کے پاس اب بھی مہینوں تک لڑائی جاری رکھنے کےلئے گولہ بارود موجود ہے اور وہ اب بھی غزہ میں لڑائی کے ساتھ اسرائیل میں راکٹ برسا سکتے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ غزہ پر جنگ کے دوران حماس کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا کہ حماس کے ارکان لڑائی کے لیے صورتحال کے مطابق ڈھل رہے ہیں اور اب ان کی حکمت عملی چھوٹے گروہوں میں لڑنا اور اسرائیلی فوجیوں کو گھات لگا کر غائب ہو جانا ہے۔ سابق امریکی جنرل جوزف ووٹل نے اخبار کو بتایا کہ صورتحال ظاہرکرتی ہے کہ حماس نقصانات کے باوجود مزید لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی خفیہ اداروں کا اندازہ ہے کہ جنگ کے آغاز سے لےکر اب تک حماس نے اپنے 20 سے 30 فیصد جنگجوو¿ں کوکھو دیا ہے۔ اندازے کے مطابق حماس کے پاس جنگ سے قبل 25 ہزار سے 30 ہزار جنگجوو¿ں کے علاوہ ہزاروں پولیس اہلکار اور دیگر فورسز تھیں۔