گواہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو عدل و انصاف پر مضبوطی سے ڈٹ جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گو وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے رشتے دار عزیزوں کے… تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے گریز کیا تو جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (سورۃ النساء: 135)۔
احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے کے میں عمران خان کو 14 سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے جبکہ القادر یونیورسٹی کو پنجاب حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے لازم ہے کہ اخلاقی پہلو کا جائزہ لیا جائے۔ اس مقدمے کا تعلق پاکستان کے نامور پراپرٹی ٹائیکون سے ہے۔ ان کے ایک ویڈیو بیان کے مطابق پاکستان میں کوئی فائل اس وقت تک آگے نہیں چل سکتی جب تک اس کے نیچے پہیے نہ لگائے جائیں۔ اس پراپرٹی ٹائیکون کی نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ قربت کی داستانیں بھی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں۔
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے پر رکھی۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں اپنے ذاتی اخلاقی معیار کے دعوے کرتے رہے۔ عوام نے ان کے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں اپنا رہنما تسلیم کرلیا۔ ان کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ اس پراپرٹی ٹائیکون کے سلسلے میں محتاط رہتے اور اس سے القادر یونیورسٹی کے لیے اراضی کا عطیہ قبول نہ کرتے جس میں طلبہ کو سیرت النبی کی تعلیم دینے کا پروگرام تھا۔ حالیہ مقدمے میں عمران خان کا اخلاقی وجود متاثر ہوا ہے اور وہ بھی ایک پراپرٹی ٹائیکون سے مفادات اور عطیات وصول کرنے والے سیاسی لیڈروں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ عمران خان اگر شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنا سکتے تھے تو القادر یونیورسٹی بھی پراپرٹی ٹائیکون سے عطیہ لیے بغیر بنا سکتے تھے۔
اس مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیہ کے قانون کے مطابق کسی غیر ملکی کی جانب سے خریدی گئی کوئی جائیداد مشکوک ذرائع سے لی گئی ہو اور اس میں منی لانڈرنگ یا کرپشن کا شبہ ہو تو نیشنل کرائم ایجنسی اسے ضبط کر کے متعلقہ ملک کو واپس کر سکتی ہے۔ ایک مقدمے میں یہ ثابت ہوا کہ متذکرہ پراپرٹی ٹائیکون نے برطانیہ میں 190 ملین پاؤنڈ کی جائیداد خریدی ہے جس کی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے ادا کی گئی۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ رقم حکومت پاکستان کو واپس کی جائے۔ جب یہ فیصلہ منظر عام پر آیا تو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پراپرٹی ٹائیکون سے سازباز کرکے منصوبہ بندی کی کہ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں جمع کر دی جائے جو اس پراپرٹی ٹائیکون کو جرمانہ ادا کرنے کے لیے کھولا گیا تھا۔ مبینہ طور پر اس منصوبہ بندی میں زلفی بخاری، فرح گوگی، ملک ریاض اور بشریٰ بی بی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے وزیراعظم عمران خان کو ٹریپ کر لیا اور وہ 190 ملین پاؤنڈ حکومت کے خزانے میں جمع کرانے کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے پر آمادہ ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے 2019ء میں کابینہ کے سامنے بند لفافہ پیش کر کے پر اسرار طور پر اس کی منظوری حاصل کی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اراکین ڈاکٹر شیریں مزاری، فیصل واؤڈا اور فواد چوہدری نے اس وقت اس نوعیت کی خفیہ منظوری پر اعتراض کیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کابینہ کے فیصلے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ نمبر برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو ارسال کر دیا گیا تھا۔ بنک ریکارڈ کے مطابق کابینہ اجلاس سے پہلے ہی برطانیہ سے رقم قسطوں میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا شروع ہو گئی تھی۔ 2021ء میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے 458 کنال اراضی گفٹ کی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور بشریٰ بی بی ہیں۔ مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح گوگی نے موضع موڑا نور اسلام اباد میں 240 کنال اراضی بھی بحریہ ٹاؤن سے حاصل کی۔ نیب کا الزام ہے کہ القادر یونیورسٹی کے لیے اراضی دراصل 190 ملین پاؤنڈ کے سلسلے میں اس فیور کے لیے حاصل کی گئی جو متذکرہ پراپرٹی ٹائیکون کو دی گئی تھی۔ اس مقدمے میں ملک ریاض، زلفی بخاری، شہزاد اکبر اور فرح گوگی کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ یہ مقدمہ ایک سال تک چلتا رہا جس کے دوران چار جج تبدیل ہوئے۔ اس مقدمے کے اہم گواہوں میں سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک، زبیدہ جلال اور وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان شامل تھے۔ احتساب عدالت کے موجودہ جج ناصر جاوید رانا نے تین بار فیصلہ سنانے کی تاریخ کو موخر کیا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں اور وکلاء کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کا کیس غیر قانونی اور ناجائز ہے کیونکہ اس سلسلے میں نہ ہی ریاست کو ایک روپے کا نقصان ہوا اور نہ ہی عمران خان کو ایک روپے کا فائدہ ہوا اور سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع رقم بھی قومی خزانے میں منتقل ہوگئی۔ ان کا یہ خیال ہے کہ جب یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو یہ فیصلہ برقرار نہیں رہ سکے گا کیونکہ یہ فیصلہ سیاسی انتقام کے نتیجے میں سنایا گیا ہے اور شک کا فایدہ قانون کے مطابق ملزم کو نہیں دیا گیا۔ فیصلے کی کوئی آئینی اور قانونی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو سنگین سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان حساس نوعیت کے چیلنجز کا مقابلہ قومی اتفاق رائے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان آج بھی پاکستان کے مقبول لیڈر ہیں۔ ان کے تعاون کے بغیر پاکستان کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا۔ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات کی تبدیلی اور عمران خان کی رہائی کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
٭…٭…٭