عزیر احمد .............
حجاز مقدس ہر مسلمان کیلئے عقیدتوں کا مرکز اور محور ہے۔ اس کی وجہ سرورِ کائناتؐ سے اس سرزمین کی نسبت ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج یا عمرہ کی صورت میں کعبتہ اللہ کی زیارت کرے اور درِ مصطفیٰؐ پر حاضری دے۔
سعودی فرمانروائوں کے رویے سے بھی ہر مسلمان کیلئے عزت و احترام جھلکتا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھی سعودی عرب کا کہیں نہ کہیں کردار ضرور ہے۔ سقوط ڈھاکہ تک پاکستان سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ریاست مدینہ کے بعد پاکستان میں دنیا کی واحد مملکت ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر معروض وجود میں آئی۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ان عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو باقی اسلامی ممالک کے مقابلے میں خصوصی اہمیت دی۔ پاکستان کیلئے ہمیشہ خصوصی مراعات کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو اس میں سب سے بڑا کردار بھی سعودی فرما روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا تھا۔ پاکستان میں خدانخواستہ کوئی سانحہ ہو یا حادثہ زلزلہ آئے یا سیلاب‘ جنگ ہو یا شورش سعودی عرب نے ہمیشہ امدادی کارروائیوں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ امداد کا اہتمام کیا۔
1977ء میں نفاذ نظام مصطفیٰؐ کی تحریک کے نتیجے میں جب حالات بگڑ رہے تھے تو سعودی سفیر جناب ریاض الخطیب نے برادرانہ کردار ادا کرتے ہوئے آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی کو ایک میز پر لا بٹھانے کیلئے انتھک محنت اور کوشش کی جس میں بالآخر کامیاب ہوئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ملک پر آمریت کی سیاہ رات طاری ہوئی۔ آمر مطلق جناب نواز شریف کو بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے انجام سے دوچار کرنا چاہتا تھا کہ سعودی عرب ان کو بچا کر اپنے ملک لے گیا۔ یہ سعودی عرب کا پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان ہے۔ ایک موقع پر نظر آرہا تھا کہ سعودی عرب شاید مشرف کی حمایت کرتے ہوئے لندن سے پاکستان آمد پر نواز شریف کو اپنے ہاں لے گیا‘ لیکن پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ سعودی عرب نے میاں نواز شریف کو مشرف کی بھرپور مخالفت کے باوجود پورے احترام اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ پاکستان بھجوایا ۔
سعودی حکمران اور عوام کا پاکستانی حکمرانوں اور عوام کے مابین خلوص‘ محبت اور احترام کا عظیم ترین رشتہ قائم رہا ہے لیکن آج کی مرکزی حکومت کے رویے کے باعث پاک سعودی تعلقات میں آج کل جیسی سرد مہری کبھی نہیں رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر صاحب نے عقیدت کے مرکز کے شاہی خاندان کو پاکستان میں دی گئیں شکار گاہیں واپس لے کر اپنے کاروباری مرکز کے حکمرانوں کو دیدیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایسے رویے سے سعودی حکمرانوں کے دوستی اور اخوت کے جذبے کا ماند پڑنا فطری امر ہے۔ علی عویض العسیری پاکستان میں سفیر تھے‘ ان کو ترکمانستان میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا تو پاکستان میں سعودی سفیر کی پوسٹ کافی عرصہ خالی رہی‘ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور عبدالعزیز ابراہیم الغدیر کو پاکستان میں سفیر تعینات کیا جو آج اسلام آباد پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ پوری قوم اس تعیناتی پر خوش ہے اور سفیر محترم کو خوش آمدید کہتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں تعینات کئے جانے والے سفیر کو سعودی عرب قبول کرنے پر تیار نہیں حکومت پاکستان اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسے شخص کو سعودی عرب میں سفیر تعینات کرے جو ان کو قابل ہو۔ سعودی عرب کے علاوہ عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنا اور ان کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے لیکن یہ تعلقات سعودی عرب سے دوستی کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔
حجاز مقدس ہر مسلمان کیلئے عقیدتوں کا مرکز اور محور ہے۔ اس کی وجہ سرورِ کائناتؐ سے اس سرزمین کی نسبت ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج یا عمرہ کی صورت میں کعبتہ اللہ کی زیارت کرے اور درِ مصطفیٰؐ پر حاضری دے۔
سعودی فرمانروائوں کے رویے سے بھی ہر مسلمان کیلئے عزت و احترام جھلکتا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھی سعودی عرب کا کہیں نہ کہیں کردار ضرور ہے۔ سقوط ڈھاکہ تک پاکستان سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ریاست مدینہ کے بعد پاکستان میں دنیا کی واحد مملکت ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر معروض وجود میں آئی۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ان عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو باقی اسلامی ممالک کے مقابلے میں خصوصی اہمیت دی۔ پاکستان کیلئے ہمیشہ خصوصی مراعات کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو اس میں سب سے بڑا کردار بھی سعودی فرما روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا تھا۔ پاکستان میں خدانخواستہ کوئی سانحہ ہو یا حادثہ زلزلہ آئے یا سیلاب‘ جنگ ہو یا شورش سعودی عرب نے ہمیشہ امدادی کارروائیوں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ امداد کا اہتمام کیا۔
1977ء میں نفاذ نظام مصطفیٰؐ کی تحریک کے نتیجے میں جب حالات بگڑ رہے تھے تو سعودی سفیر جناب ریاض الخطیب نے برادرانہ کردار ادا کرتے ہوئے آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی کو ایک میز پر لا بٹھانے کیلئے انتھک محنت اور کوشش کی جس میں بالآخر کامیاب ہوئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ملک پر آمریت کی سیاہ رات طاری ہوئی۔ آمر مطلق جناب نواز شریف کو بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے انجام سے دوچار کرنا چاہتا تھا کہ سعودی عرب ان کو بچا کر اپنے ملک لے گیا۔ یہ سعودی عرب کا پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان ہے۔ ایک موقع پر نظر آرہا تھا کہ سعودی عرب شاید مشرف کی حمایت کرتے ہوئے لندن سے پاکستان آمد پر نواز شریف کو اپنے ہاں لے گیا‘ لیکن پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ سعودی عرب نے میاں نواز شریف کو مشرف کی بھرپور مخالفت کے باوجود پورے احترام اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ پاکستان بھجوایا ۔
سعودی حکمران اور عوام کا پاکستانی حکمرانوں اور عوام کے مابین خلوص‘ محبت اور احترام کا عظیم ترین رشتہ قائم رہا ہے لیکن آج کی مرکزی حکومت کے رویے کے باعث پاک سعودی تعلقات میں آج کل جیسی سرد مہری کبھی نہیں رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر صاحب نے عقیدت کے مرکز کے شاہی خاندان کو پاکستان میں دی گئیں شکار گاہیں واپس لے کر اپنے کاروباری مرکز کے حکمرانوں کو دیدیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایسے رویے سے سعودی حکمرانوں کے دوستی اور اخوت کے جذبے کا ماند پڑنا فطری امر ہے۔ علی عویض العسیری پاکستان میں سفیر تھے‘ ان کو ترکمانستان میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا تو پاکستان میں سعودی سفیر کی پوسٹ کافی عرصہ خالی رہی‘ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور عبدالعزیز ابراہیم الغدیر کو پاکستان میں سفیر تعینات کیا جو آج اسلام آباد پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ پوری قوم اس تعیناتی پر خوش ہے اور سفیر محترم کو خوش آمدید کہتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں تعینات کئے جانے والے سفیر کو سعودی عرب قبول کرنے پر تیار نہیں حکومت پاکستان اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسے شخص کو سعودی عرب میں سفیر تعینات کرے جو ان کو قابل ہو۔ سعودی عرب کے علاوہ عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنا اور ان کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے لیکن یہ تعلقات سعودی عرب سے دوستی کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔