بھارتی وزیراعظم کے ساتھ گیلانی کے انتہائی کامیاب مذاکرات کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ خود من موہن سنگھ پر پوری بھارتی بزنس برادری کا بڑا پریشر تھا۔ پورے ملک کی فیڈریشن برائے چیمبرز آف کامرس نے سردار جی کو یہ بات باور کروا کر بھیجی تھی کہ حضرت صاحب اس وقت تقریباً ایک سو دو ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہماری دہلیز پر محض اس وجہ سے رکی ہوئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں اور جب تک یہ صورتحال قائم رہی مزید سرمایہ کاری تو درکنار، ایک ایک کرکے سابقہ سرمایہ کار بھی آگے پیچھے ہوتے رہیں گے۔ دوسری اہم وجہ پاکستانی وزیراعظم کا ایک نرم خو اور سمجھدار سیاستدان ہونا تھا۔ نرم خوئی میں توخیر من موہن گیلانی صاحب سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں مگر گیلانی کا ایک تجربہ کار اور منجھا ہوا سیاستدان ہونا انہیں اپنے بھارتی ہم منصب پر فوقیت دلواتا ہے کہ سردار جی بنیادی طور پر ٹیکنو کریٹ ہی ہیں چنانچہ جو ملاقات محض تیس منٹ کیلئے شیڈول ہوئی تھی تقریباً 3 گھنٹے جاری رہی۔ اس قسم کی ملاقاتیں خاصی اعصاب شکن ہوا کرتی ہیں اور بائی پاس آپریشن کے بعد تو من موہن سنگھ کی کیفیت گیلانی کی نسبت اور زیادہ نرم تھی۔ تیسرا کریڈٹ دفتر خارجہ کے چند افسران کو دینا بے حد ضروری ہے کہ ان کی کارکردگی دیکھ کر پہلی مرتبہ ہمارے قلم سے ان احباب کیلئے کلمہ خیر نکل رہا ہے۔ سلمان بشر‘ سیکرٹری خارجہ اور بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر شاہد ملک کی محنت نے اپنا رنگ خوب جمائے رکھا اور اگر جامع امن مذاکرات کا سلسلہ باردیگر شروع ہوجاتا ہے جس کے امکانات کافی روشن ہوتے جارہے ہیں تو پھر حکومت پاکستان ان دونوں سینئر افسران کو تمغۂ حسن کارکردگی سے نواز کر ایک اچھی مثال قائم کرسکتی ہے۔ تاہم اس ابتدائی کامیابی میں مذکورہ دو سینئر افسران کے ساتھ ساتھ ان کے دو عدد جونیئر معاونین کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ یہ دونوں ہونہار ’’شکرے‘‘ سہیل احمد‘ ڈائریکٹر جنرل فارن سیکرٹریز آفس اور افراسیاب مہدی ہاشمی‘ ڈائریکٹر جنرل سائوتھ ایشیا ہیں جن کا پیپر ورک اور شبانہ روز محنت یقینا پاکستان کے بہت کام آئے ہوں گے۔
بیٹھ کر کرنے والا کام!
پاک بھارت مذاکرات کی طویل و عریض رپورٹنگ کرتے کرتے جب بیچاری میڈیا ٹیم تھکاوٹ اور بوریت سے بلبلا اٹھی تو سب نے باہر نکلنے او رونق میلہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ہوٹل کے گردونواح کئی کئی کلومیٹر تک صحرائے سینائی پھیلا ہوا تھا۔ دوسری طرف بحیرہ احمر تھا اور یار لوگوں کی اکثریت تو اپنے ’’کچھے‘‘ بھی ہمراہ نہیں لائی ہوئی تھی چنانچہ مصر میں پاکستانی سفارتخانے کے ڈائریکٹر انفارمیشن ڈاکٹر نجیب صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں اور اللہ کے اس نیک اور انتہائی پیارے بندے نے ہمارے لیے کوچ کا بندوبست کردیا۔ تقریباً 20 منٹ کی مسافت پر خلیج نامہ کا نہایت چھوٹا مگر پرہجوم اور بارونق بازار تھا۔ ہم میں سے ایک تھکا ٹُٹا صحافی دوست جو واقعی پچھلے 24 گھنٹے سے کام پر جتا ہوا تھا، بار بار ایک ہی بات کرتے چلا جارہا تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس میں چلنا پھرنا نہ پڑے اور بس جو کچھ کیا جائے بیٹھ کر ہی کیا جائے۔ ظاہر ہے اس کی مراد کیبرے وغیرہ میں جاکر تسلی کے ساتھ بیٹھ کر ڈانس وانس دیکھنے سے تھی مگر ڈاکٹر نجیب بوجوہ بار بار غچہ دے کر ان کی بات سنی ان سنی کردیتے لیکن وہ بھی لگاتار ’’بیٹھ کر کچھ کرنے‘‘ کی تکرار سے باز نہ آیا۔ بالآخر مجیب الرحمن شامی صاحب نے جھلا کر کہا ’’یار بیٹھ کر تو پھر پیشاب ہی کیا جاسکتا ہے، جائو کوچ کی اوٹ میں بیٹھ کر کرلو!‘‘ ایک چھت شگاف نعرہ بلند ہوا اور ہمارے اس انتہائی پیارے صحافی دوست کی خواہش پر بھی اوس پڑ گئی اور اس نے کیبرے ڈانس وغیرہ کے تصور پر لعنت بھیج کر نہایت اطمینان کے ساتھ بیوی بچوں کیلئے شاپنگ شروع کردی کہ اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ کار تھا ہی نہیں۔
اہرام مصر
دل کو دہلا دینے اور ہوش اڑا دینے کا کام مصری قوم پچھلے چار ہزار چھ سو چھتیس سال سے ان تین عدد اہراموں سے لیتی چلی آرہی ہے جو مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مضافاتی علاقے میں عین صحرا کے سرے پر واقع ہیں۔ سینکڑوں فٹ بلند ان اہراموں میں ایک بے حد اونچا ہے جس کو اس وقت کے فرعون نے اپنی آخری آرام گاہ قرار دیا۔ دو اہرام نسبتاً کم بلند ہیں۔ ان میں سے ایک کو بادشاہ کی بیشمار ملکائوں کے مقبرے کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ اہرام مصر کے سامنے کھڑے ہوکر دھیان جن باتوں سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا ان میں سرفہرست یہ ہے کہ بغیر مشینوں کے استعمال کے‘ اس قدر عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہو کیسے گئیں کیونکہ انسانی ہاتھوں سے یہ معجزہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ فرعون کو کیا سوجھی کہ اس نے ہزاروں انسانی جانیں ضائع کرکے پتھر کے یہ پہاڑ تعمیر کرڈالے۔ دھاک بٹھانے کے اور بھی کئی طریقے موجود ہوں گے، آخر اس قدر مشکل طریقہ ہی کیوں اپنایا گیا اور یہ کہ اس حجم کے لاکھوں پتھر آخر لائے کس جگہ سے گئے۔
قاہرہ دنیا کے غلط ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اور اس کی ساخت کراچی سے بہت ملتی جلتی ہے البتہ کراچی عمومی طور پر اس سے بہتر اور صاف ستھرا ہے۔ اب آپ خود ہی بیچارے قاہرہ کی حالت زار کا اندازہ کرلیں۔ دریائے نیل کا تذکرہ کل یعنی آخری قسط میں!