16دسمبر 1971ءکے بعد جب بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور وہ مغربی پاکستان پر بھی جارحانہ یلغار کی تیاری کر رہا تھا تو ہنری کسنجر کے بقول امریکہ نے اندرا گاندھی کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس پر ایٹمی حملہ کر دیا جائے گا۔ اس پر بھارت اپنے مذموم ارادوں سے باز رہا۔اس صورت حال میں نئے پاکستان کا اقتدار پیپلزپارٹی کو منتقل ہوا اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ اگر بھارت کے مقابل پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو پھر ہمارے لئے بھی ایٹمی طاقت بننا لازمی ہے۔ یہی و ہ پس منظر ہے جس میں جناب بھٹو نے نعرہ بلند کیا کہ ” گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے“ اس نعرے نے پاک بھارت تعلقات کی نئی جہت متعین کر دی۔ بھارت نے 1974ءمیں ایٹمی دھماکہ کر کے جناب بھٹو کے اس عزم کو مزید پختہ کر دیا اور یوں پاکستان اُس راستے پر گامزن ہوا جس نے برصغیر میں ایٹمی ڈیٹرنس قائم کر کے قیام امن کی ضمانت فراہم کر دی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر لیا۔ اس طرح برصغیر میں طاقت کا توازن قائم ہو گیا اور پاکستان کی سلامتی اور آزادی کو لاحق تمام خطرات اور خدشات دور ہو گئے۔ میاں نواز شریف نے بھی عالمی دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی ایٹمی طاقت کا ثبوت فراہم کر دیا۔ ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت نے پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی۔ سرجیکل سٹرائیک تک کی منصوبہ
بندی کی، پاکستان کی سرحد پر فوجیں بھی جمع کر دیں لیکن اسے پاکستان کو روندنے کی ہمت نہیں پڑی۔بھارت اب ہٹ دھرمی تو اختیار کر سکتا ہے اور باہمی معاملات اور تنازعات کو طے کرنے سے گریز تو کرسکتا ہے لیکن ایٹمی ڈیٹرنس کی وجہ سے وہ پاکستان کو بڑا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جناب بھٹو نے پاک بھارت تعلقات کا ایک اور اصول بھی متعین کر دیا تھا کہ اگر وقتی طور پر کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو اسے باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کر لیا جائے۔ 1971ءکی جنگ میں بھارت نے ہماری ایک لاکھ فوج اور سول آبادی کو کلکتہ کے جنگی کیمپوں میں قید کر رکھا تھا۔ مغربی پاکستان کا بھی سینکڑوں مربع میل کا علاقہ اس کے زیر قبضہ تھا لیکن جناب بھٹو نے قومی اتفاق رائے کے حصول کے بعد شملہ جا کر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کئے اور یہ دونوں سنگین مسائل طے کر لئے۔ ہمارے جنگی قیدی بھی رہا ہو کر واپس آ گئے اور مقبوضہ علاقہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا۔آج پاکستان کی پھر یہی کوشش ہے کہ حل طلب مسائل کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ کشمیر کے مسئلے کی سنگینی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کشمیری آبادی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کے دریاﺅں کا پانی بھی بند کر دیا ہے جس سے ملک کے بنجر ہونے اور شدید قحط کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سیا چین اور سرکریک کے معاملات میں حل طلب ہیں۔پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے مذاکرات کے لئے بھارتی ہم منصب کرشنا جی اسلام آباد آئے لیکن وہ اصل تنازعات پر بات کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہی نہ تھے اور صرف ممبئی کے سانحہ پر ان کی سوئی اڑی رہی۔ اس طرح مذاکرات کی کامیابی کی کوئی امید ہی نہ تھی۔ ہمارے وزیرخارجہ نے بھارتی ہم منصب کی ذہنی کیفیت کھول کر رکھ دی ہے اور بھارت اب آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے۔یہ درست ہے کہ حالیہ پاک بھارت مذاکرات کے پیچھے امریکی ہاتھ موجود تھا اس لئے کہ پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر اپنی مشرقی سرحدوں سے فوجیں ہٹا کر افغان سرحد پر منتقل نہیں کیں کیونکہ ہم مسلسل بھارت کی طرف سے خطرات کی زد میں ہیں۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر بددلی سے مذاکرات کیسے نتیجہ خیز ہو سکتے تھے۔
بھارت، پاکستان کو ہماری ایٹمی قوت کے پیش نظر جارحیت کا نشانہ تو نہیں بنا سکتا مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر کشمیریوں کے لئے عذاب بنا رہے گا اور ممکنہ طور پر پاکستان کو آبی جارحیت کا شکار بنا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کو عالمی برادری کے ذریعے بھارت پر دباﺅ بڑھانا چاہیے تاکہ کشمیریوں کو حق خود اختیاری مل سکے اور وہ آبی جارحیت کا ہتھکنڈہ اختیار کرکے پاکستان کی معیشت اور زراعت کو نقصان پہنچانے سے باز رہے۔ اسی صورت میں برصغیر میں باہمی تعلقات کی ٹیڑھی کھیر کا معمہ حل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔